Visitors

Saturday, March 29, 2025

حقیقتِ زندگی: خواب یا کیمیائی ترکیب؟


کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ زندگی، زندگی نہیں بلکہ ایک خواب ہے۔ ہماری اصل زندگی ولادت سے پہلے کہیں سرگرمِ عمل تھی اور مرنے کے بعد پھر مصروفِ عمل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک مسافر کو چلتے چلتے نیند آ جاتی ہے اور وہ نیند میں ایک سہانا خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے، اِسی طرح چلتے چلتے ہمیں نیند نے آ لیا اور ایک خواب شروع ہو گیا۔ اِسی خواب میں ہم بیدار ہوئے، تعلیم حاصل کی، ملازمت کی، پنشن ملی، بڑھاپا آیا، مر گئے اور جیسے ہی آنکھ کھلی، تو معلوم ہوا کہ:

"خواب تھا جو کچھ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔"

ہم ہر رات خواب دیکھتے ہیں، جس میں ہم کھا پی رہے ہوتے ہیں، کھیل رہے ہوتے ہیں، کبھی اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں تو کبھی کسی ڈراؤنے خواب سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو خواب تھا۔ اگر فرض کریں کہ ہم چالیس سال تک نہ جاگیں، تو ہم اِسی خواب کو ہی اپنی اصلی زندگی سمجھنے لگیں گے۔ یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ زندگی حقیقت ہے یا خواب؟ مرزا غالب نے کہا تھا:

"ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں۔"

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "لوگ سو رہے ہیں، مرتے ہی جاگ اٹھیں گے۔"

نیند کیا ہے؟ موت و حیات کا ایک ہلکا سا تجربہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر، آیت 42 میں فرماتا ہے: "اللہ موت کے وقت انسانوں کی روحیں پوری طرح قبض کر لیتا ہے اور زندوں کو ہر شب موت کا نقشہ دکھاتا ہے۔"

ایک بزرگ نے زندگی کو یوں بیان کیا تھا:

"زندگی ایک دم کا وقفہ ہے، یعنی آگے چلیں گے، دم لے کر۔"

ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اور یہ کیسے ختم ہو جاتی ہے؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات مختلف عناصر (Elements) سے بنی ہے، جو مخصوص تناسب میں مرکبات (Compounds) بناتے ہیں۔ یہی تناسب زندگی کی بنیاد ہے، اور اِس تناسب کا ٹوٹ جانا ہی موت ہے۔ مثال کے طور پر، پانی (H2O) زندگی ہے، جو زمین کے 70 فیصد حصے پر موجود ہے۔ اگر آکسیجن کی مقدار ذرا سی بھی زیادہ ہو جائے، تو یہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ (H2O2) بنا دیتی ہے، جو زہر ہے۔

یہ اللہ کی حکمت ہے کہ وہ نہ صرف ان عناصر کو ایک خاص ترتیب میں رکھتا ہے بلکہ کسی قسم کا بگاڑ بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اگر آج یہ قوتِ قاہرہ اپنی نگرانی اٹھا لے، تو کائنات کا شیرازہ بکھر جائے، عناصر تحلیل ہو کر اپنے مراکز کی طرف بھاگنے لگیں اور دنیا میں صرف دھواں ہی دھواں رہ جائے۔

"زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کا پریشان ہونا۔"

اللہ تعالیٰ سورۃ انعام، آیت 61-62 میں فرماتا ہے: "کائنات پر اسی کی مشیتِ قاہرہ کی حکمرانی ہے، اور اس نے تم پر محافظ مقرر کر رکھے ہیں جو ترکیب عناصر کی حفاظت کرتے ہیں، اور یہ حفاظت موت (یعنی تحلیل عناصر) تک جاری رہتی ہے۔"

یہ حقیقت ہے کہ تمام جانداروں کی ترکیب آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن اور چند نمکیات سے ہوئی ہے۔ ان اجزاء کی مخصوص نسبت میں ذرا برابر تبدیلی بھی کائنات کے نظام کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ انسانی جسم کا تقریباً 99 فیصد حصہ آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ 0.85 فیصد پوٹاشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین اور میگنیشیم پر مشتمل ہوتا ہے۔

اگر ایک انسان کے جسم میں موجود عناصر کی قیمت کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ تقریباً 1985.77 امریکی ڈالر بنتی ہے، جو آج کے پاکستانی کرنسی کے حساب سے تقریباً 2,45,987 روپے بنتی ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو کروڑوں روپے بھی دے کر کہا جائے کہ اپنی ایک آنکھ دے دو، تو وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔

انسانی جسم کے یہ عناصر مختلف مرکبات (Compounds) کی صورت میں موجود ہوتے ہیں، اور موت کے بعد یہ مرکبات تحلیل ہو کر دوبارہ عناصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، انسانی موت کی منصوبہ بندی کہیں پہلے سے ہی اس کے ڈی این اے (DNA) میں شامل ہوتی ہے، جو ایک گھڑی کی طرح موت کے لمحات گنتی رہتی ہے۔ جیسے ہی وقت مقرر آتا ہے، خلیوں کی توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے اور انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔

موت کے بعد جسم کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، جسے "برودۂ موت" (Algor Mortis) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد تعفن پیدا ہوتا ہے (Decomposition) اور لاش کے اکڑ جانے کے عمل میں مختلف کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جدید طب اور ٹیکنالوجی نے موت کو دل اور سانس کی حرکت رک جانے سے تعبیر کیا ہے، جبکہ آج کا طبیب دماغی موت (Brain Death) کو حیاتیاتی موت (Biological Death) قرار دیتا ہے۔

انسانی جسم پر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ بال اگ رہے ہیں، آنکھیں دیکھ رہی ہیں، دل دھڑک رہا ہے، سانس چل رہی ہے، کان سن رہے ہیں اور دماغ سوچ رہا ہے۔ اس کارخانے کے انجن کا نام "روح" ہے۔ اسی طرح پوری دنیا کے کارخانے میں دریا اور سمندر بہہ رہے ہیں، ہوائیں چل رہی ہیں، سورج روشنی دے رہا ہے، دن اور رات اپنے وقت پر آ جا رہے ہیں۔ مگر ان سب کے پیچھے ایک ہی قوت ہے: اللہ تعالیٰ۔

"تمہاری ترکیب خاکی ذرات سے ہوئی، جس کے انتشار کا وقت بھی مقرر ہو چکا ہے۔" (سورۃ انعام، آیت 6)

انسانی بدن کی تخلیق اللہ کا ایک حیرت انگیز اعجاز ہے، جسے دیکھ کر عقل سربسجود ہو جاتی ہے۔ بدنِ انسانی کی تخلیق خلیوں سے ہوتی ہے، ابتدا میں یہ خلیہ ایک ہوتا ہے، پھر دو، چار، آٹھ میں تقسیم ہو کر بدن کی تشکیل کرتا ہے۔ بعض خلیے کان، بعض آنکھ، بعض ناک اور بعض دیگر اعضاء کی تشکیل پر لگ جاتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ خلیے سازش یا بغاوت کر کے کان کی جگہ ناک اور ناک کی جگہ آنکھ بنا دیں، کیونکہ ایک عظیم طاقت ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہی ہے۔

"ارض و سما کی ہر چیز مشیّتِ ایزدی کو بجا لانے پر مجبور ہے۔" (سورۃ آل عمران، آیت 83)

یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے، اور اسی کی مشیت کے مطابق ترکیبِ عناصر اور تحلیلِ عناصر کا یہ سفر جاری ہے۔

 انسانی جسم کے بنیادی عناصر

کل مالیت ($)

قیمت فی کلوگرام ($)

جسم میں مقدار (kg)

عنصر (Element)

129

3

43

آکسیجن

384

24

16

کاربن

700

100

7

ہائیڈروجن

7.2

4

1.8

نائٹروجن

200

200

1.0

کیلشیم

234

300

0.78

فاسفورس

140

1000

0.14

پوٹاشیم

70

500

0.14

سلفر

25

250

0.10

سوڈیم

0.14

1.5

0.095

کلورین

0.7

37

0.019

میگنیشیم

0.3

72

0.0042

آئرن


عناصر اور ان کے استعمالات

استعمالات
عنصر (Element)
سانس لینے، خون میں آکسیجن کی ترسیل، توانائی کی پیداوار
آکسیجن
ڈی این اے، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس اور چربی کی تشکیل
کاربن
پانی کا بنیادی جز، خلیوں میں توانائی کے عمل میں مددگار
ہائیڈروجن
پروٹین اور ڈی این اے کی تشکیل، خلیوں کی نشوونما
نائٹروجن
ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی، خون کے جمنے کا عمل
کیلشیم
ڈی این اے، توانائی کے مالیکیول (ATP) کی تشکیل
فاسفورس
پٹھوں اور اعصاب کی فعالیت، بلڈ پریشر کو متوازن رکھنا
پوٹاشیم
امینو ایسڈز اور پروٹین کی تشکیل
سلفر
اعصابی سگنلز کی ترسیل، پانی کے توازن کا برقرار رکھنا
سوڈیم
جسم میں پانی اور الیکٹرولائٹس کے توازن کو برقرار رکھنا
کلورین
اعصابی اور عضلاتی نظام کی درستگی، ہڈیوں کی مضبوطی
میگنیشیم
خون میں ہیموگلوبن کی تشکیل، آکسیجن کی ترسیل
آئرن

 




Tuesday, March 18, 2025

باب گیارہواں : محبت کے چراغ اور ظلم کی آندھیاں

 

باب  گیارہواں : محبت کے چراغ اور ظلم کی آندھیاں

رات کا اندھیرا قمونیہ پر اپنے پر پھیلائے ہوئے تھا۔ شہر کی گلیاں سنسان تھیں، اور دور کہیں جلتے ہوئے چراغوں کی روشنی کمزور سی امید کا سا منظر پیش کر رہی تھی۔ لیکن ایک کمرے میں روشنی کی کرن کچھ زیادہ ہی روشن تھی — یہ روشنی علیان اور نایاب کی محبت کی تھی، جو ہر ظلم کے اندھیرے کو چیرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔

علیان تھکا ہوا تھا، زخموں سے چور، مگر اس کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ نایاب نے اس کے زخموں پر مرہم رکھا، مگر اس کے لمس میں صرف دوا نہیں تھی — محبت تھی، حوصلہ تھا، اور ایک خاموش التجا تھی کہ علیان ہار نہ مانے۔

نایاب نے علیان کی پیشانی کو چھوا اور مدھم سی آواز میں کہا:
"
علیان، کیا کبھی یہ جنگ ختم ہو گی؟ کیا ہم دونوں کبھی سکون سے زندگی گزار سکیں گے؟"

علیان نے اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھاما، جیسے وہ اس لمحے کو ہمیشہ کے لیے روک لینا چاہتا ہو:
"
یہ جنگ ختم ہو گی، نایاب۔ مگر اس کے لیے ہمیں سب کچھ قربان کرنا ہو گا — شاید اپنی محبت بھی۔"

نایاب کے آنسو اس کی پلکوں پر لرزنے لگے، مگر اس نے انہیں گرنے نہ دیا۔ وہ جانتی تھی کہ علیان کا راستہ مشکل ہے، مگر وہ بھی اسی راستے پر چلنے کے لیے تیار تھی۔

دوسری طرف جنرل عتیق اور مذہبی رہنما مولوی سراج کی سازشیں تیز ہو رہی تھیں۔ انہوں نے عوام پر مزید ٹیکس نافذ کر دیے تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو چکی تھیں، اور جو لوگ بغاوت کرتے، انہیں یا تو سرِعام کوڑے مارے جاتے یا غائب کر دیا جاتا۔

ایک دن بازار میں ایک غریب عورت نے اپنے بچے کے لیے روٹی چرانے کی کوشش کی۔ سپاہیوں نے اسے بیچ بازار میں گھسیٹ کر مارنا شروع کر دیا۔ لوگ تماشائی بنے کھڑے رہے، کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ آگے بڑھ کر اسے بچائے۔ علیان اور نایاب یہ منظر دور سے دیکھ رہے تھے۔ علیان کے چہرے پر غصے اور درد کا طوفان تھا۔

نایاب نے آہستہ سے علیان کا ہاتھ تھام لیا:
"
یہی وقت ہے، علیان! اب ہمیں آواز بلند کرنی ہو گی، ورنہ یہ ظلم کبھی ختم نہیں ہو گا۔"

نایاب نے چھپ کر عورتوں کا ایک گروہ تیار کر لیا تھا — بیوائیں، مائیں، بہنیں، اور وہ لڑکیاں جنہیں ریاست نے غلامی کے طوق پہنائے ہوئے تھے۔ یہ عورتیں چپ چاپ علیان کے ساتھ مل کر تحریک میں شامل ہو چکی تھیں۔ انہوں نے خفیہ طور پر کھانے کا بندوبست کرنا شروع کیا، زخمی باغیوں کی دیکھ بھال کرنے لگیں، اور یہاں تک کہ راتوں کو شہر کی دیواروں پر آزادی کے نعرے لکھنے لگیں:

"القمونیہ آزاد ہو گا!"
"
ظلم کا تخت گرایا جائے گا!"
"
عوام کو زندہ رہنے کا حق ہے!"

نایاب نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا:
"
علیان زندہ باد!"

رات کے وقت، جب علیان اور نایاب تنہا بیٹھے تھے، علیان نے نایاب کے چہرے کو دیکھا، جیسے وہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں محفوظ کر لینا چاہتا ہو۔

"نایاب، اگر میں نہ رہا  تو؟ اگر میں مر گیا تو تم کیا کرو گی؟"

نایاب کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے، مگر اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
"
علیان، محبتیں مر کر زندہ ہوتی ہیں۔ اگر تم نہ رہے تو میں تمہارے خواب کو اپنی جان سے زیادہ سنبھالوں گی۔ میں تمہاری جنگ کو اپنی جنگ بناؤں گی — اور جب تک القمونیہ آزاد  نہ ہو جائے، میں رکوں گی نہیں۔"

علیان نے اسے قریب کرتے ہوئے آہستہ سے کہا:
"
نایاب، تم میری روشنی ہو۔ اگر تم ساتھ ہو، تو میں کبھی  ہار نہیں سکتا۔"

جیسے ہی علیان اور نایاب نے اپنی جنگ کو ایک نئی امید کے ساتھ آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، ویسے ہی جنرل عتیق کو خبر ملی کہ علیان کے ساتھ عورتیں بھی اس بغاوت میں شامل ہو گئی ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ ہر اس عورت کو سنگسار کیا جائے گا جو علیان کا ساتھ دے گی۔

نایاب نے علیان کی آنکھوں میں دیکھا، اور پہلی بار علیان نے خوف محسوس کیا — خوف نایاب کو کھونے کا۔

"نایاب، میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔"

نایاب نے علیان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور مسکرا کر کہا:
"
محبتیں کھوئی نہیں جاتیں،  وہ ہمیشہ دلوں       میں زندہ  رہتی ہیں —  بس تم  مجھ سے وعدہ کرو علیان،  اگر میں نہ رہی تو میری روشنی کو کبھی بجھنے  نہ دینا۔"