Visitors

Friday, February 21, 2025

وہاں تک ساتھ چلتے ہیں

 

وہاں تک ساتھ چلتے ہیں، جہاں تک ساتھ ممکن ہو

جہاں حالات بدلیں گے، وہاں تم بھی بدل جانا

محبت کی قسم کھائی، وفا کی راہ پر آئے
مگر جب دل مچل جائے، وہاں تم بھی بدل جانا

ہمیں تم سے شکایت کیا، یہ دنیا کا اصول ٹھہرا
جو سب چہرے بدلتے ہیں، وہاں تم بھی بدل جانا

مسافر ہیں سفر اپنا، مقدر کا لکھا ٹھہرا
جہاں رستے بکھر جائیں، وہاں تم بھی بدل جانا

یہ دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا کب رہا آخر؟
جو سب موسم بدلتے ہیں، تو تم بھی بدل جانا

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا


غرورِ حُسن

 


اُسے یہ گُمان حسیں اُس سا نہیں کوئی
ہمیں یہ یقین، کوئی ہم سا ہو سامنے آئے

وہ اپنی نظر میں خورشید و ماہتاب ہے
مگر دیکھے جو ہمیں، وہ دل نا سنبھال پائے

غرورِ حُسن میں بد مست ہے آئینے کے سنگ
مگر یہ آئینہ بھی اُس کے گھمنڈ کو توڑ جائے

ہمارا ظرف کہ ہر زخم پر ہنستے ہی رہے
وہ ایک درد دے، اور تماشا دیکھنے آئے

عجب ہے اُس بے وفا کی چاہت میں
جو پاس ہو تو ستم، دُور ہو تو رُلائے

ذکر پہ ہمارے ہنستا ہے محفلوں وہ
مگر جو تنہا ہو، آنکھ اشک ہی بہائے

اگر وہ چاہے تو دنیا خرید لے لیکن
خزینے محبتوں سے ہاتھ خالی جائے

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا




کِھلنے کا ہنر

 

پھول آپس میں نہیں الجھتے،
نہ رنگ کا غرور کرتے ہیں،
نہ خوشبو کی برتری جتاتے ہیں،
نہ ایک دوسرے کی روشنی چھینتے ہیں۔

یہ بس کھلتے ہیں،
اپنی مٹی میں، اپنی جگہ پر،
اپنے موسم کی نرم آغوش میں،
اپنی دھوپ، اپنی چھاؤں میں۔

یہ ہوا کے سنگ جھومتے ہیں،
بارش میں بھیگ کر مسکراتے ہیں،
اپنی خوشبو بانٹ کر خوش ہوتے ہیں،
بغیر یہ سوچے کہ کون زیادہ خوبصورت ہے۔

مگر ہم؟
ہم دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں،
اپنا رنگ، اپنی خوشبو بھول جاتے ہیں،
مقابلے کی دھوپ میں،
اپنی نرمی کھو دیتے ہیں۔

کاش ہم بھی سیکھ لیتے،
پھولوں سے کھلنے کا ہنر،
بغیر جیتنے کی خواہش کے،
بغیر دوسروں کو ہرانے کی فکر کے،
بس اپنی ذات کی خوشبو بکھیرنے کا ہنر!

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

پہلی محبت اناج ہے

 


  ‏تو محبت کو خواب سمجھے ہے
تو قناعت کو عذاب سمجھے ہے
‏ہمیں دیکھ، دل کے چراغ سے
یہی جلتا ہے آگ سے

‏ہمارے آنگن کے خواب ہیں
یہی بھوکے بچوں کے جواب ہیں
‏یہی چاندنی، یہی روشنی
یہی زندگی کی کتاب ہے

‏ہوا، پانی، مٹی، زمین ہے
یہی دھڑکنوں کی یقین ہے
‏تُو نہ جانے ہمارے سوال کو
تُو نہ پہچانے حال کو

‏ہماری پہلی محبت اناج ہے
یہی عزم ہے، یہی راج ہے
‏تُو مُفلسی کی رَوایات سے نہیں واقف
یہی زندگی کا سراج ہے

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا !

ایک بے حس وجود کی کہانی

 


  میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہوں
جس کی پہچان صرف جسمانی اعضاء ہیں۔
میری روح، میرے خواب، میری خواہشیں
سب جیسے کوئی جرم ہیں، کوئی خطا ہیں۔

جب میں پیدا ہوئی تو کوئی خوش نہیں تھا،
باپ کے چہرے کی شکنیں، ماں کی خاموشی
میرے وجود کو گواہی دے گئیں
کہ میں بس ایک بوجھ ہوں، ایک قرض ہوں۔

میری چال پر نظر، میری آواز پر روک
میرے خوابوں پر قفل، میرے قدموں میں زنجیر
مجھے سکھایا گیا کہ میں لڑکی ہوں
اور لڑکی کا کام بس دبنا ہے، سہنا ہے۔

پھر ایک دن
بنا سوال، بنا جواب
مجھے ایک اور قید خانے میں بھیج دیا گیا
قبول ہے“ کی زنجیروں میں جکڑ کر
ایک انجان شخص کے حوالے کر دیا گیا۔

رات کے اندھیروں میں
میرے وجود کا مطلب سمجھایا گیا
میرے جسم کو تسکین کا ذریعہ بنا دیا گیا
میری چیخیں، میرے آنسو
اس کے سکون کے لیے قربان ہو گئے
اور میں ایک بے حس لاش میں بدلتی گئی۔

دن میں میں روبوٹ بنی
چولہے کے دھوئیں میں گم
جھاڑو کے شور میں ڈھل
رات کو ایک ٹھنڈی لاش کی مانند
اس کے جذبات کا بوجھ اٹھاتی رہی۔

مجھے کہا گیا
کہ یہی عورت کی قسمت ہے۔
ماں نے کہا، "بیٹی، صبر کرو"
باپ نے کہا، "یہی تمہارا گھر ہے"
بھائی نے کہا، "یہی ہماری عزت ہے"
مگر کسی نے نہ پوچھا
کہ میری خواہش کہاں ہے؟
میری روح کہاں ہے؟

میرے وجود کو عزت کا استعارہ بنا دیا گیا
باپ کی غیرت، بھائی کی انا،
شوہر کی مردانگی، بیٹے کا فخر
سب مجھ سے جُڑے رہے،
مگر میری ذات کہاں تھی؟

میں سوچتی ہوں
کیا میں انسان ہوں؟
یا صرف ایک جسم
جسے دوسروں کی تسکین اور انا کے لیے بنایا گیا؟

میرے خوابوں کا کیا ہوا؟
میرے خواب، جو کبھی قوسِ قزح کی مانند تھے
اب وہ دھندلے سایے بن چکے ہیں
اور میں،
بس ایک سایہ ہوں
زندگی کے کونے میں دبکی ہوئی۔

کاش کوئی سمجھے
کہ میں بھی ایک انسان ہوں
ایک دل، ایک روح، ایک خواب رکھنے والی۔
میں گوشت کا لوتھڑا نہیں،
میں ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی عورت ہوں۔
میرے وجود کو صرف عزت کا معیار نہ بناؤ
بلکہ میری ذات کو جینے کا حق دو۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا