سید سبط حسن لکھتے ہیں کہ سیکولرازم کا بنیاد ی اصول یہ ہے کہ ضمیر و
فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، لہذا ہر فرد کو پوری اجازت
ہونی چاہئے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل خواہ ان کا تعلق
سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے، فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب و فن سے
، اپنے خیالات کی بلا خوف و خطر ترویج کرے۔ طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا
دھمکی اور دھونس سے کسی کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانا حقوق انسانی کے منافی
ہے۔سیکولرازم انسانی معاشرے کی تنظیم و انضباط کا ایسا ریاستی نظام ہے جو واضح طور
پر طے شدہ جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے اور بسنے والے تمام انسانوں کے لئے
بغیر کسی امتیاز کے مساوی تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر
ریاست ان مقاصد کے حصول کے لیے فہم عامہ ، اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول
بروئے کار لاتی ہے۔
یہی " سیکولرزم" پالیسی ہے، جسکا غلط معنی مفہوم اور تشریح
کی گئی۔ ہمارے ہاں علمی بدیانتی و تعصب کے سبب عام عوام کے ذہنوں میں غلط مطلب
پیوست کیے گئے ہیں۔ مغرب کی ایجادات ، گوگل فیسبک ، موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی
، طب اور دوسرے علوم سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مگ سیکولر ، سائنسی ، جمہوری اقدار
کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ عام آدمی سے لفظ سیکولر کا مطلب پوچھ لیں، وہ کہے
گا اس کا مطلب ہے دین سے دوری، لادینیت ، بے حیائی ، اسلام دشمنی ، سیکس ،
اور عورتوں کی بے راہ روی وغیرہ " سیکولر پالیسی و اقدار " کا قطعاً
مذہب مخالفت سے لینا دینا نہیں، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ریاستی سطح پہ
مذ ہب کا استعمال نہ ہو، ریاستی ادارے بلا امتیاز رنگ نسل مذ ہب فرقہ سبھی
کے لیے ہیں ، ریاست سبھی کی ہے، مذ ہب عقیدے نظریے عوام کے ہوتے ہیں،
بندے اور خدا کا معاملہ ہوتا ہے ریاست کا کام فلاحی قانونی انتظامی اور
انسانی امور و معاملات سے متعلق ہے ، مذ ہب جو ہے وہ تہذیب و ثقافت کا
حصہ ہے ، مذہبی لسانی نسلی نظریاتی رواداری اور باہمی رہن سہن " انسانیت
" ہے ۔
سیکولرازم کے تین بنیادی اصول
1. ریاستی اور مذہبی اداروں کی علیحدگی
2. کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی
3. مذہب کی بنیاد پر تفریق کا خاتمہ
عملی طور پر ہمارے ہاں ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا صرف شہری کے مذہب سے ہی تعلق ہے باقی شہری زندہ ہے یا مر گیا اس سے البتہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔ ہمارے ہاں ذھب ملاؤں اور ایلیٹ کلاس کی ڈھال ، کاروبار اور ہتھیار ہے۔ مذہبی ہتھ کنڈوں مذہبی ٹچوں پہ مبنی تقاریر و بیانیوں کے ذریعے سے ان کی اجارہ داری اور ان کی روزی روٹی چلتی ہے اور آمرانہ پالیسیوں کی عمارت کی بنیاد ہی مذہب کے سیاسی استعمال پہ کھڑی ہے۔
سیکولرازم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مذ ہبیت اور سماجی سیاسی زندگی (ریاست اور سیاست) کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جائے، ریاست انسانی ہوتی ہے کوئی مخصوص مذہبی نہیں بلکہ ایک جمہوری فلاحی ریاست کثیر نظریاتی کثیر ثقافتی کثیر نسلی کثیر قومی ہوتی ہے۔سیکولر ازم کو ہماری اکثریت لادینیت ہی سمجھتی ہے۔سیکولرازم کوئی مذہب مخالف تحریک یا نظریہ نہیں ہے۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ وہ جو مرضی چاہے مذہب اختیار کرے یا ترک کرے ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی طرح سیکولرازم کوٹ پتلون پہننے، ٹائی لگانے، شراب پینے انگریزی بولنے کا نام بھی نہیں ہے۔ ہر وہ فرد سیکولر ہے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھلے ہی مذہب پر عمل پیرا ہو لیکن سماجی اور سیاسی زندگی سے اپنے مذہبی عقائد کو دور رکھتا ہو۔ سیکولرازم میں ریاست کی بنیادی تعریف یہی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست جب کسی مذہب کے ساتھ جڑتی ہو تو یہ اپنی اس بنیادی تعریف سے باہر ہو جاتی ہے۔ کسی شہری کا کیا مذہب ہے کیا نہیں یا کوئی مذہب نہیں ہے ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ریاست کسی ایک مذہب عقیدے یا فرقے کی نہیں بلکہ بلا لحاظ مذہب، عقیدہ اورفرقہ تمام شہریوں کی ہوتی ہے۔
ریاست سب شہریوں کی! مذہب سب شہریوں کا اپنااپنا
ریاست مذہب کو استعمال کرنا چھوڑ دے تو مولوی اور اس کی طاقت ھوا ہوجائے گی جب تک ریاست مذہبی ہے اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔ پاکستانیوں کی سمجھ میں کم از کم یہ بات نہیں آئے گی، انھیں یورپ میں رہتے ھوئے چاہے کتنا عرصہ کیوں نہ ہو جائے لیکن لفظ سیکولرزم کا مطلب اور سمجھ بوجھ نہیں ھوتی بلکہ جس سیکولر ملک میں زندگی بسر کر رھے ھوتے ہیں اسے بھی مکمل طور پر عیسائی ملک سمجھتے ہیں۔
یہ پاکستانی بڑے بڑے پیروں فقیروں کو یورپ لاتے ہیں اور بڑی بڑی مذہبی محفلیں اور میلاد شریف وغیرہ منعقد کراتے ہیں، مذہبی تبلیغی سلسلہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہی پیر فقیر کسی اور مذہب والوں کو اجازت دیں گے کہ وہ بھی انکی طرح پاکستان جا کر اپنی تبلیغی سرگرمیاں کریں؟؟ سیکولر ملکوں میں تو خود دوڑ دوڈ کر آجاتے ہیں۔
پاکستانی ریاست جب تک اپنے آ پ کو ایک سیکیولر ریاست ڈکلیئر نہیں کرتی اور سیکیولر ازم کے فلسفے پر عمل پیرا نہیں ہوتی اس وقت تک کنویں کے مینڈک کی طرح ایک جگہ پر پھنس کے رکی رہے گی، اگر ریاست نے ترقی کرنی ہے، عوام کی بھلائی مقصود ہے تو اسلامی جمہوریہ کی بجائے ریپبلک آ ف پاکستان کی طرف جانا لازمی ہے
ReplyDelete