ستر ہزار سال پہلے، خردمند آدمی ایک ادنی اور معمولی جانور تھاجو اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے افریقہ کے ایک کونے میں پڑا ہواتھا۔ پھر ہزاروں سال کا عرصہ لگا کر اس نے اپنی کایا پلٹی اور کرہ ارض پر ایسا غالب آیا کہ عرض کے ماحولیاتی نظام پر آفت بن کر ٹوٹ پڑا۔ آج، یہ ادنی جانور، خدا بننے کے قریب ہے۔ اس کے پاس اب لازوال جوانی ہی نہیں بلکہ تخلیق اور تخریب کی خدائی طاقت بھی ہوا کرے گی۔ بد قسمتی سے کرہ ارض پر خردمند آدمی نے اپنے تسلط کے دوران اب تک کچھ ایسی شے پیدا نہیں کی جس پر ہم فخر کر سکیں۔ ہم نے اپنےگرد و نواع پر دسترس حاصل کر لی ہے، ہم خوراک کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہو چکے ہیں، ہم نے شہر تعمیر کیے،سلطنتیں کھڑی کیں اور وسیع ترین تجارتی جال بھی بچھا لیے۔ لیکن کیا ہم نے اس دنیا میں دکھ،الم، کرب اور مصیبت میں کچھ کمی پیدا کی؟ ہم بار بار اس امر پر زور دے چکے ہیں کہ اجتماعی طور پر انسانی طاقت اور کامیابیوں کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ انفرادی سطح پر آدمی کی حالت بہتر ہوئی ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس اجتماعی طاقت کے نتیجے میں صرف فرد ہی نہیں بلکہ دوسرے جانور بھی سخت مصیبت اور کرب کا شکار ہو چکے ہیں۔جہاں تک انسانی حالت کی بات ہے تو بلاشبہ طور پر پچھلی چند دہائیوں میں کافی بہتری آئی ہے۔ قحط سالی، فاقہ کشی، وبائی امراض اور جنگ وجدل میں کمی آئی ہے۔ لیکن دوسری انواع و اقسام نباتات اور حیوانات کی حالت نہایت تیزی سے بگڑ تی ہی چلی گئی ہے۔ جب کہ ماضی کے مقابلے میں اس کی رفتار بہت ہی تیز ہو چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انسانی حالات میں بہتری کے آثار بھی اس قدر مہین اور تازہ ہیں کہ ہم اس کے بارے بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
مزید بر
آں یہ ہے کہ آج بھلے انسان حیران کن کرتب بازی کے قابل ہو چکا ہے لیکن ہمیں
آج بھی اپنی منزل مقصود کا کچھ اندازہ نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم پہلے
سے کہیں بڑھ کر عدم اطمینان اور ناخوش ہو چکے ہیں۔ ہم نے ڈونگی کشتیوں سے بادبانوں
سے چلنے والی کشتیاں پھر بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور ٹرینوں سے لے کر خلائی
جہاز تک بھی ایجاد کر لیے ہیں لیکن کسی کو کچھ خبر نہیں ہےکہ ہم آخر کہاں جانے کا
ارادہ رکھتے ہیں؟ ہم آج بے پناہ طاقت کے حامل ہیں لیکن ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ آخر
اس بے انتہا طاقت کاکرنا کیا ہے؟ اس سے بھی بد تر یہ ہے کہ آج انسان، ہمیشہ سے بڑھ
کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ہم طبیعیات کے اصولوں کی کچھ سمجھ بوجھ رکھنے
کی وجہ سے اپنے تئیں خدا بن بیٹھے ہیں۔ ایسا خدا جو کسی کو
جوابدہ نہیں ہے اور نتیجتا اپنے ہم سر نامیات (نباتات اور حیوانات) پر قہر بن کر
ٹوٹ چکے ہیں اور اپنے گردو نواح میں ماحولیاتی نظام کر برباد کر کے رکھ دیا
ہے۔ہمیں اپنے آرام اور آسود گی کے سوا کسی شے سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم اس
کی دھن میں لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں کبھی چین نہیں آتا۔
آپ ہی بتائیے، ایک انتہائی غیر ذمہ دار اور بے چین، عدم
اطمینانی کے شکار خدا سے بڑھ کر خطر ناک کون ہو گا؟ پھر خدا بھی ایسا
جسے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ آخر چاہتا کیا ہے؟