Visitors

Wednesday, July 17, 2024

ایک جانور جو خدا بن بیٹھا- یوال نوح حراری

   

ستر ہزار سال پہلے، خردمند آدمی ایک ادنی اور معمولی جانور تھاجو اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے  افریقہ کے ایک کونے میں پڑا ہواتھا۔ پھر ہزاروں سال کا عرصہ لگا کر اس نے اپنی کایا پلٹی اور کرہ ارض  پر ایسا غالب آیا کہ عرض کے ماحولیاتی نظام  پر آفت بن کر ٹوٹ پڑا۔ آج، یہ ادنی جانور، خدا  بننے کے قریب ہے۔ اس کے پاس اب لازوال جوانی ہی نہیں بلکہ تخلیق اور تخریب  کی خدائی  طاقت بھی ہوا کرے گی۔  بد قسمتی سے کرہ ارض  پر خردمند آدمی نے اپنے تسلط کے دوران اب تک کچھ ایسی شے   پیدا نہیں کی  جس پر ہم فخر کر سکیں۔ ہم نے اپنےگرد و نواع  پر  دسترس حاصل کر لی ہے، ہم خوراک کی زیادہ سے زیادہ   پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہو چکے ہیں، ہم نے شہر تعمیر کیے،سلطنتیں کھڑی کیں اور وسیع ترین تجارتی جال بھی بچھا لیے۔ لیکن کیا ہم نے اس دنیا میں دکھ،الم، کرب اور مصیبت میں کچھ کمی   پیدا کی؟  ہم  بار بار اس امر  پر زور  دے چکے ہیں کہ اجتماعی طور پر انسانی طاقت اور کامیابیوں کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ انفرادی سطح پر آدمی کی حالت بہتر ہوئی ہو۔  یہی نہیں بلکہ اس اجتماعی طاقت کے نتیجے میں صرف فرد ہی نہیں بلکہ دوسرے جانور بھی سخت مصیبت اور کرب کا شکار ہو چکے ہیں۔جہاں تک انسانی حالت کی بات ہے تو بلاشبہ طور پر پچھلی چند دہائیوں میں کافی بہتری آئی ہے۔ قحط سالی، فاقہ کشی، وبائی امراض اور جنگ وجدل میں کمی آئی ہے۔ لیکن دوسری انواع و اقسام  نباتات اور حیوانات کی حالت نہایت تیزی سے  بگڑ تی ہی چلی گئی ہے۔ جب کہ ماضی کے مقابلے میں اس کی رفتار بہت ہی تیز ہو چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انسانی حالات میں بہتری کے آثار بھی اس قدر مہین اور تازہ ہیں کہ ہم اس کے بارے بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مزید بر آں  یہ ہے کہ آج بھلے انسان حیران کن کرتب بازی کے قابل ہو چکا ہے لیکن ہمیں آج بھی اپنی منزل مقصود  کا کچھ اندازہ نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم پہلے سے کہیں بڑھ کر عدم اطمینان اور ناخوش ہو چکے ہیں۔ ہم نے ڈونگی کشتیوں سے بادبانوں سے چلنے والی کشتیاں پھر بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور ٹرینوں سے لے کر خلائی جہاز تک بھی ایجاد کر لیے ہیں لیکن کسی کو کچھ خبر نہیں ہےکہ ہم آخر کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ہم آج بے پناہ طاقت کے حامل ہیں لیکن ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ آخر اس بے انتہا طاقت کاکرنا کیا ہے؟ اس سے بھی بد تر یہ ہے کہ آج انسان، ہمیشہ سے بڑھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ہم طبیعیات کے اصولوں کی کچھ سمجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے  اپنے تئیں خدا  بن  بیٹھے ہیں۔ ایسا خدا جو کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور نتیجتا اپنے ہم سر نامیات (نباتات اور حیوانات) پر قہر بن کر ٹوٹ چکے ہیں اور اپنے گردو نواح  میں ماحولیاتی نظام کر برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہمیں  اپنے آرام اور آسود گی کے سوا کسی شے سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم اس کی دھن میں لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں کبھی چین نہیں آتا۔
آپ ہی بتائیے، ایک انتہائی غیر ذمہ دار اور بے چین، عدم اطمینانی کے شکار خدا سے بڑھ کر خطر ناک کون ہو گا؟ پھر خدا بھی ایسا  جسے  یہ   پتہ ہی نہیں کہ وہ آخر  چاہتا کیا ہے؟

 

Sunday, July 14, 2024

سیکولرازم کا مفہوم : سید سبطِ حسن

  

 سید سبط حسن لکھتے ہیں کہ سیکولرازم کا بنیاد ی اصول یہ ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، لہذا ہر فرد کو پوری اجازت ہونی چاہئے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل خواہ ان کا تعلق سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے، فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب و فن سے ، اپنے خیالات کی بلا خوف و خطر ترویج کرے۔ طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا دھمکی اور دھونس سے کسی کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانا حقوق انسانی کے منافی ہے۔سیکولرازم انسانی معاشرے کی تنظیم و انضباط کا ایسا ریاستی نظام ہے جو واضح طور پر طے شدہ جغرافیائی حدود میں   پیدا ہونے اور بسنے والے تمام انسانوں کے لئے بغیر کسی امتیاز کے مساوی تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ان مقاصد کے حصول کے لیے فہم عامہ ، اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے  کار لاتی ہے۔
یہی " سیکولرزم" پالیسی ہے، جسکا غلط معنی مفہوم اور تشریح کی گئی۔ ہمارے ہاں علمی بدیانتی و تعصب کے سبب عام عوام کے ذہنوں میں غلط مطلب   پیوست کیے گئے ہیں۔ مغرب کی ایجادات ، گوگل فیسبک ، موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی ، طب اور دوسرے علوم سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مگ سیکولر ، سائنسی ، جمہوری اقدار کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ عام آدمی سے لفظ سیکولر کا مطلب پوچھ لیں،  وہ کہے گا اس کا مطلب ہے دین سے  دوری، لادینیت ، بے حیائی ، اسلام دشمنی ، سیکس ، اور عورتوں کی بے راہ روی وغیرہ " سیکولر پالیسی و اقدار " کا قطعاً مذہب مخالفت سے لینا دینا نہیں، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ریاستی سطح  پہ  مذ ہب کا استعمال نہ ہو، ریاستی ادارے بلا امتیاز رنگ نسل  مذ ہب فرقہ سبھی کے لیے  ہیں ، ریاست سبھی کی ہے،   مذ ہب عقیدے نظریے عوام کے ہوتے ہیں، بندے اور خدا کا معاملہ ہوتا ہے ریاست کا  کام فلاحی قانونی انتظامی اور انسانی امور و معاملات سے متعلق ہے ،  مذ ہب جو ہے وہ  تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے ، مذہبی لسانی نسلی نظریاتی رواداری اور باہمی رہن سہن " انسانیت " ہے ۔

سیکولرازم کے تین بنیادی اصول 

   1. ریاستی اور مذہبی اداروں کی علیحدگی

  2. کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی

  3. مذہب کی بنیاد پر تفریق کا خاتمہ 

عملی طور پر ہمارے ہاں ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا صرف شہری کے مذہب سے ہی تعلق ہے باقی شہری زندہ ہے یا مر گیا اس سے البتہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔ ہمارے ہاں ذھب ملاؤں اور ایلیٹ کلاس کی ڈھال ، کاروبار اور ہتھیار ہے۔ مذہبی ہتھ کنڈوں مذہبی ٹچوں پہ مبنی تقاریر و  بیانیوں کے ذریعے سے ان کی اجارہ داری اور ان کی روزی روٹی چلتی ہے اور آمرانہ پالیسیوں کی عمارت کی بنیاد ہی مذہب کے سیاسی استعمال پہ کھڑی ہے۔

سیکولرازم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مذ ہبیت اور سماجی سیاسی زندگی (ریاست اور سیاست) کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جائے، ریاست انسانی ہوتی ہے کوئی مخصوص مذہبی نہیں بلکہ ایک جمہوری فلاحی ریاست کثیر نظریاتی کثیر ثقافتی کثیر نسلی کثیر قومی ہوتی ہے۔سیکولر ازم کو ہماری اکثریت لادینیت ہی سمجھتی ہے۔سیکولرازم کوئی مذہب مخالف تحریک یا نظریہ نہیں ہے۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ وہ جو مرضی چاہے مذہب اختیار کرے یا ترک کرے ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی طرح سیکولرازم کوٹ  پتلون  پہننے،  ٹائی لگانے، شراب پینے انگریزی بولنے کا نام بھی نہیں ہے۔ ہر وہ فرد سیکولر ہے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھلے  ہی مذہب پر عمل  پیرا ہو لیکن سماجی اور سیاسی زندگی سے اپنے مذہبی عقائد کو دور رکھتا ہو۔ سیکولرازم میں ریاست کی بنیادی تعریف یہی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست جب کسی مذہب کے ساتھ جڑتی ہو تو یہ اپنی اس بنیادی تعریف سے باہر ہو جاتی ہے۔ کسی شہری کا کیا مذہب ہے کیا نہیں یا کوئی مذہب نہیں ہے ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ریاست کسی ایک مذہب عقیدے یا فرقے کی نہیں بلکہ بلا لحاظ مذہب، عقیدہ اورفرقہ تمام شہریوں کی ہوتی ہے۔

ریاست سب شہریوں کی! مذہب سب شہریوں کا اپنااپنا

ریاست مذہب کو استعمال کرنا چھوڑ دے تو مولوی اور اس کی طاقت ھوا ہوجائے گی جب تک ریاست مذہبی ہے اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔ پاکستانیوں کی سمجھ میں کم از کم  یہ بات نہیں آئے گی، انھیں یورپ میں رہتے ھوئے چاہے کتنا عرصہ کیوں نہ ہو جائے لیکن لفظ سیکولرزم کا مطلب اور سمجھ بوجھ نہیں ھوتی بلکہ جس سیکولر ملک میں زندگی بسر کر رھے ھوتے ہیں اسے بھی مکمل طور پر عیسائی ملک سمجھتے ہیں۔

یہ پاکستانی بڑے بڑے  پیروں فقیروں کو یورپ لاتے ہیں اور بڑی بڑی مذہبی محفلیں اور میلاد شریف وغیرہ منعقد کراتے ہیں، مذہبی تبلیغی سلسلہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہی  پیر فقیر کسی اور مذہب والوں کو اجازت دیں گے کہ وہ بھی انکی طرح پاکستان جا کر اپنی تبلیغی سرگرمیاں کریں؟؟ سیکولر ملکوں میں تو خود دوڑ دوڈ کر آجاتے ہیں۔

 

 

 

Saturday, July 13, 2024

بچوں میں تنقیدی اور آزادانہ سوچ کو بڑھائیں

 


بچوں میں تنقیدی اور آزادانہ سوچ کو بڑھانا ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس مضمون میں  چند تجربے اور تربیتی تراکیب بتائی گئی ہیں  جو بچوں کو تنقیدی سوچ اور اپنے خیالات کو بیان کرنے کی صلاحیت دینے میں مدد فراہم کرتی  ہیں۔آپ ان میں اضافہ  کرکے شکریہ کا موقع بھی دے سکتے ہیں جس کے لیے مضمون کے آخر میں کمنٹ باکس موجود ہے۔

تعارف:

تنقیدی اورآزادانہ سوچ انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہ بچوں کی فکری قابلیتوں کو بہتر بناتی ہے اور انہیں مختلف مسائل اور حل کے لئے انتہائی موزون طریقے سے سوچنے میں مدد دیتی ہے۔

سوالات کی اجازت دیں:

بچوں کے ساتھ ان کی خوشی سے سوالات کریں اور انہیں مختلف موضوعات پر غور کرنے کے لئے  حوصلہ افزائی کریں۔   ان کو سکون سے سوالات کرنے کی اجازت دینے سے وہ اپنے خیالات اور تجربات کو آرام سے بیان کر سکتے ہیں۔

بحث اور مناظرہ کی جگہ دیں:

خانہ داری میں بچوں کو ایسا ماحول فراہم کریں جہاں وہ اپنے خیالات اور رائے کو بیان کر سکیں۔ ان کو مختلف موضوعات پر بحث اور مناظرہ کے لئے حوصلہ دینے سے ان کی سوچ کو تروتازہ کیا جا سکتا ہے۔

کتاب پڑھائی کا حوصلہ دیں:

بچوں کو مختلف کتب پڑھنے کے لئے متحرک کریں۔ کتب ان کی فکری ہوائیں کو بڑھاتی ہیں اور انہیں نئے  نئے انداز سوچنے کی  مثال فراہم کرتی ہیں۔

انسانی حقوق کے بارے میں تعلیم دیں:

انسانی حقوق اور انصاف کے بارے میں بچوں کو تعلیم دیں۔ ان کو سمجھائیں کہ ہر شخص کی رائے کی احترام کرنا اور ان کے مواقف کی تحریم کرنا ضروری ہے۔

اپنی رائے یا خیالات مت ٹھونسیں:

بچوں  کی رائے کا اور خیالات کا احترام کریں اور ان کے خیالات کو سنیں۔ ان  کے ساتھ سمجھداری سے برتاؤ  کریں چاہے ان کی رائے آپ کے خلاف ہو یا مختلف ہو۔

خوابوں کو پورا کرنے کی حوصلہ افزائی کریں:

بچوں کے خوابوں اور چاہتوں کا احترام کریں اور انہیں ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی  کریں کہ وہ بھی نئے اور انوکھے طریقوں سے سوچ سکتے ہیں۔

تجربات کو تعمیر کرنے کی اجازت دیں:

بچوں کو تجربات کرنے کی اور غلطیوں سے سیکھنے کی اجازت دیں۔ ان کو یہ سکھائیں کہ ہر غلطی یا ناکامی ایک نیا سبق ہے جو ان کی ترقی کے راستے میں ایک قدم ہو سکتا ہے۔

دنیا کے مختلف مسائل کے بارے میں بات کریں:

بچوں کو دنیا کے مختلف مسائل کے بارے میں بات کریں اور ان کو سمجھائیں کہ ہر مسئلہ کے مختلف روایات اور احتمالات ہوتے ہیں۔

ان کے نیتیجے کو احترام دیں:

بچوں کی تنقیدی سوچ کو قدر دیں اور ان کے اندازِ فکر کا احترام کریں۔ انہیں یقین دلائیں کہ وہ اپنے خیالات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔

 مختصر یہ کہ بچوں میں آزاد اور فکری سوچ کی پرورش ان کی ذاتی ترقی اور تیزی سے پیچیدہ دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ ان خوبیوں کو فروغ دے کر، اساتذہ اور والدین نہ صرف بچوں کو اپنے لیے سوچنے کی طاقت دیتے ہیں بلکہ انہیں 21ویں صدی میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے درکار مہارتوں اور ذہنیت سے بھی آراستہ کرتے ہیں۔ اگر ہم تعلیم اور بچوں کی نشوونما میں ان مہارتوں کو ترجیح دیتے رہے تو ہم یقیناً آنے والی نسلوں کو اعتماد، تخلیقی صلاحیتوں، منطقی سوچ اور لچک کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Friday, July 12, 2024

کمفرٹ زون سے باہر: ایک نئی دنیا کا آغاز

 

 

 

   کمفرٹ زون ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں ہم خود کو محفوظ اور آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ اس میں رہتے ہوئے، ہم عام طور پر نئے چیلنجز قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی زندگی یا پروفیشنل کیریئر میں ترقی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم اپنی کامیابیوں کے ساتھ خوش رہتے ہیں لیکن آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے ہم سست اور آرام طلب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک روٹین اور یکسانیت ہوتی ہے جو ہمارے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔ اس حالت میں، چیزیں آٹو پائلٹ پر چلتی ہیں اور ہم اکثر نئے مواقع سے دور رہتے ہیں۔

کمفرٹ زون کا نقصان

زیادہ عرصے تک کمفرٹ زون میں رہنا آپ کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے اعتماد اور خوشی کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ آپ کی صلاحیتوں کو بھی ماند کر سکتا ہے۔ ہمارا دماغ اور جسم اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ ہم تب ہی خوش رہتے ہیں جب ہمیں چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے اور ہم ترقی کر رہے ہوتے ہیں۔

سیلف امپروومنٹ اور کمفرٹ زون

سیلف امپروومنٹ کے اصولوں کے مطابق، اگر آپ ترقی کرنا بند کر دیتے ہیں تو آپ زوال کی طرف جا سکتے ہیں۔ ترقی کے لیے، آپ کو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑے گا۔ جب آپ کوئی نیا اور مشکل کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ خود کو کمفرٹ زون سے باہر پاتے ہیں۔

کمفرٹ زون سے باہر قدم کیسے رکھیں؟

کمفرٹ زون سے باہر آنے کے لیے، آپ کو کچھ نئی اور چیلنجنگ چیزیں کرنی ہوں گی:

نئی مہارتیں

 نئی مہارتیں سیکھیں جیسے پبلک سپیکنگ یا کوئی نئی زبان۔

نئی عادات

 مثلاً، ٹائم مینجمنٹ سیکھیں۔

نیا رویہ

 دوسروں کے بارے میں تنقیدی رویہ کم کریں یا زیادہ سوشل بنیں۔
یہ سب کچھ آپ کے لیے مشکل ہوسکتا ہے اور اس میں رسک شامل ہوتا ہے کہ آپ ناکام ہو سکتے ہیں یا مذاق کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ تاہم، آپ کو اپنے حوصلے کو بلند رکھنا ہوگا، خود کو قائل کرنا ہوگا، اور سٹریس سے گزرنا ہوگا۔ آپ کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جگانا ہوگا اور نئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

خود کا جائزہ لیں

اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ کیا آپ نے سیلف امپروومنٹ کے لیے کوئی نیا اور چیلنجنگ کام کرنے کا سوچا ہے؟ نئے خوابوں اور منصوبوں پر کام شروع کریں۔ اپنی زندگی کو جامد نہ ہونے دیں، اسے نیا ولولہ اور جوش فراہم کریں۔
زندگی کا اصل مزہ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھنے میں ہے۔ کیا آپ تیار ہیں؟

 ایک شاندار زندگی آپ کی منتظر ہے، بس آپ کو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ہوگا۔