Visitors

Sunday, November 24, 2024

فن کا ابدی سفر: وحید مراد اور ایلوس پریسلے



وحید مراد اور ایلوس پریسلے دو مختلف ثقافتوں، زبانوں، اور دنیاؤں کے نمائندہ فنکار تھے، لیکن ان کی زندگیاں اور موت کے بعد ان کی مقبولیت میں جو حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے، وہ ان کے فن کی عظمت اور انسانی فطرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ دونوں نے نہ صرف اپنے وقت میں اپنے فن کے ذریعے اپنی نسلوں کے دل جیتے بلکہ اپنی شخصیت، انداز، اور منفرد طرزِ زندگی سے بھی لوگوں کو متاثر کیا۔ ان کی زندگیاں ہمیں فن، شخصیت، اور عوام سے تعلق کے حوالے سے گہری بصیرت دیتی ہیں۔

ایلوس پریسلے، جنہیں "کنگ آف راک اینڈ رول" کہا جاتا ہے، نہ صرف ایک گلوکار بلکہ ایک ایسے فنکار تھے جن کی آواز اور پرفارمنس نے دنیا بھر کے مداحوں کے دل جیتے۔ ان کا ہر گانا، ہر اسٹیج پرفارمنس ایک کہانی سناتی تھی، اور وہ سامعین کو ایسا محسوس کراتے جیسے وہ ان کے قریب ہیں۔ ان کی مقبولیت کا راز صرف ان کی موسیقی میں نہیں بلکہ ان کی شخصیت کی مقناطیسیت میں بھی تھا۔ وہ نہ صرف ایک تفریح فراہم کرنے والے تھے بلکہ ایک رجحان ساز تھے جنہوں نے فیشن، موسیقی، اور ثقافت پر گہرا اثر چھوڑا۔ تاہم، ان کی زندگی کے آخری دن دکھ اور تنہائی سے بھرے ہوئے تھے۔ ذاتی اور پیشہ ورانہ مشکلات نے انہیں اتنا گھیرا کہ وہ 42 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی اچانک موت ان کے مداحوں کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی، لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔ ان کے گانے آج بھی دنیا بھر میں سنے جاتے ہیں، ان کا طرزِ لباس فیشن کی علامت ہے، اور ان کی زندگی کو فلموں اور کتابوں کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

وحید مراد، پاکستان کے فلمی دنیا کے "چاکلیٹی ہیرو"، بھی اپنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے ایک عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا چہرہ، انداز، اور جذباتی اداکاری پاکستانی سینما کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کو محبت اور رومانویت کے نئے معنی دیے، اور ان کی فلمیں، جیسے "ارمان" اور "ہیرا اور پتھر"، آج بھی کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن ان کے کیریئر کا زوال، جو ان کی زندگی کے آخری دنوں میں شدت اختیار کر گیا تھا، ان کے مداحوں کے لیے ایک افسوسناک پہلو تھا۔ فلمی صنعت میں بدلتے ہوئے رجحانات اور ذاتی مشکلات نے انہیں وہ مقام دوبارہ حاصل کرنے سے روک دیا جو وہ اپنے عروج کے دنوں میں رکھتے تھے۔

ایلوس پریسلے اور وحید مراد دونوں کی زندگیوں میں ایک مشترکہ پہلو یہ تھا کہ ان کی مقبولیت کا انحصار نہ صرف ان کے فن پر تھا بلکہ ان کے مداحوں کے ساتھ ان کے جذباتی تعلق پر بھی تھا۔ ان دونوں نے اپنے اپنے وقت کے نوجوانوں کو متاثر کیا، انہیں امید دی، اور ایک ایسی دنیا دکھائی جو حقیقی دنیا کے مسائل سے کچھ وقت کے لیے دور لے جاتی تھی۔ لیکن ان کے زوال کا وقت بھی ایک جیسا تلخ تھا۔ ایلوس پریسلے اپنی صحت کی خرابی اور ذاتی پریشانیوں سے دوچار تھے، جبکہ وحید مراد کو فلمی صنعت کے بدلتے ہوئے رجحانات اور ذاتی مسائل نے گھیرا۔

دونوں فنکاروں کی وفات کے بعد کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی فنکار کبھی نہیں مرتے۔ ایلوس کی طرح، وحید مراد کی فلمیں بھی آج کی نسل کے دلوں کو چھوتی ہیں۔ ان کے گانے، ڈائیلاگ، اور اداکاری یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر بار بار دیکھی اور سنی جاتی ہیں۔ ان کی یادگار تقریبات اور ان کے فن کی نمائش یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ایلوس کے گانے جہاں مغربی موسیقی کا حصہ بنے ہوئے ہیں، وہیں وحید مراد کی فلمیں پاکستانی سینما کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ایلوس پریسلے اور وحید مراد کی کہانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ فنکار کا اصل سرمایہ اس کا فن اور اس کی شخصیت ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ مزید نکھرتی ہے۔ ان دونوں نے اپنی زندگی کے دوران لوگوں کو خوشیاں اور خواب دیے، اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کا کام لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ دونوں شخصیات اپنے اپنے انداز میں اپنے وقت کی علامت تھیں، اور ان کی میراث یہ ثابت کرتی ہے کہ حقیقی فن لازوال ہوتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں ایک گہرا سبق یہ بھی چھپا ہے کہ زندگی میں مشکلات اور ناکامیوں کے باوجود، اگر انسان خلوصِ دل سے کام کرے، تو اس کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔

یہ دونوں فنکار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان کی زندگیوں کے عروج و زوال کے قصے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ انسان کو اپنے فن اور کام سے خلوص رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو وقت کے دھارے کو بھی چیر کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہے۔ ایلوس اور وحید مراد اس حقیقت کے زندہ مثال ہیں کہ اصل فنکار کبھی نہیں مرتے۔




Friday, November 8, 2024

واپسی کی خواہش

 

ہم بے قصور تھے
کسی دھوکے کی لذت نے
ہمیں زمین پر اتار دیا
یہاں، جہاں سب کچھ ہے
مگر وہ سکون نہیں
جو جنت کے باغوں میں تھا

ہم زمین پر بس گئے
اپنے گھر بنائے
پھل اگائے
مگر دل میں کوئی بےچینی سی ہے
جیسے کچھ کھو گیا ہو
کچھ ادھورا سا رہ گیا ہو

شیطان نے ہمیں فریب دیا
ہم نے اس کی بات مانی
مگر پھر بھی
ہمارے دل میں ایک عجب سی خواہش ہے
کہ لوٹ جائیں
جنت کی اس سرزمین پر
جہاں سب کچھ پاکیزہ تھا

یہ زمین
یہ مکان
یہ دولت
سب کچھ اپنا کر بھی
ایک کمی سی ہے
جیسے کہیں کوئی انتظار کر رہا ہو
جیسے وہ باغ اب بھی ہمیں بلا رہا ہو

ہم وہاں لوٹیں گے
جہاں نہ کوئی غم ہے
نہ فریب
جہاں صرف سکون ہے
جہاں ہمیں
حقیقی سکون ملے گا
اور ہم اپنے اصل گھر پہنچیں گے۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

گُماں

 

ہم خود کو بے وجہ جو پریشاں کریں، کیا حاصل
ہر فکر میں جلیں، چاکِ گریباں کریں، کیا حاصل

تقدیر پہ جو دل کا بھروسہ نہیں کریں،
ہر حال سے بے زار جو شکوہ کریں، کیا حاصل

جو چل رہا ہے وقت کا دریا یوں ہی چلنے دو،
جو روکنے کی خواہشِ خاماں کریں، کیا حاصل

خود کو جو ہم بے جا مصیبتوں میں ڈالیں،
ہر پل کو جو بے کار پریشاں کریں، کیا حاصل

جس نے سنبھالا ہے ہمیں، آگے بھی سنبھالے گا،
جو اُس کرم پہ پھر بھی گُماں کریں، کیا حاصل

فطرت کی طرف لوٹتا انسان

 

زندگی کی چمک دمک، یہ شور، یہ ہجوم،
انسان بھٹک رہا ہے، بس ایک سراب کے جھرمٹ میں،
کبھی لمحوں کی دوڑ، کبھی سکون کی تلاش،
مگر ہر قدم پر، ایک خالی پن، ایک درد کا احساس۔

یہ کمرشل دنیا، یہ مصنوعی چمک،
دولت کے خواب، آسائش کے دائرے،
انسان کی روح کو، دھیرے دھیرے نگل رہے ہیں،
اور فطرت کی پکار، دل کے اندر کہیں دب گئی ہے۔

جنگلوں کی سرگوشیاں، دریا کی لہریں،
کھیتوں کی خوشبو، پہاڑوں کا سکون،
یہی تھی ہماری زندگی، یہی تھا ہمارا فطرت سے رشتہ،
مگر ہم نے بیچ دیا، چند سِکّوں کے عوض، ایک کھوکھلی دنیا کے لئے۔

اب جب خالی ہاتھ، تھکے دل سے لوٹتا ہے،
انسان فطرت کی آغوش کو، اس سچائی کو پانے،
کہ سکون نہ دولت میں تھا، نہ آسائش میں،
بس فطرت کی بانہوں میں، ایک گہرا، سچا چین تھا۔

اس چمک دمک کی دنیا نے، ہم سے ہماری روح چھین لی،
اور ہم، بس خود کو کھو کر، اس دوڑ میں رہ گئے،
یہ آسائشیں، یہ دولت، یہ حوس،
کبھی نہیں بھر سکتیں، دل کے اس خالی کمرے کو۔

اب وقت ہے لوٹنے کا، فطرت کی جانب،
اپنی اصل کی جانب، اپنے سچے سکون کی طرف،
کیونکہ یہ کمرشل فیشن، یہ عارضی خوشیاں،
محض سراب ہیں، اصل زندگی تو فطرت کے سنگ ہے۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

خود مختار عورت اور محبت:

 


عورت جب کمانا شروع کرے،
وہ خود کو آزاد پائے،
کسی بیمار رشتے کی زنجیروں سے نکل جائے،
اب نہ اسے خوف ہو کسی دستک کا،
نہ آنکھوں میں ہو کوئی اشک کا ساون،
وہ خود مختیار ہو،
اپنے خوابوں کو اپنی سانسوں سے باندھ لے،
ایک نئی صبح کی طرح،
اپنے قدموں پر چلتی جائے۔

مگر وہ جو ڈرتے ہیں،
ان کے دل میں ایک خوف چھپا ہے،
کہ شاید عورت، محبت سے نہیں،
ضرورت سے بندھی ہے،
کہ کہیں وہ چھوڑ نہ جائے،
جب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے۔

کیا سچ ہے،
کیا جھوٹ،
جب یہ زنجیریں ٹوٹ جائیں گی،
جب غربت کا سایہ مٹ جائے گا،
تب اصل چہرے سامنے آئیں گے،
رشتوں کی حقیقت عیاں ہو جائے گی،
اور شاید تب ہی معلوم ہو،
کہ ہمارے معاشرے میں،
طلاق کی شرح کتنی ہے،
اور محبت کی اہمیت کتنی۔

عورت جب آزاد ہو،
تبھی معلوم ہوگا،
کیا رشتہ محبت کا تھا،
یا بس ایک مجبوری کا خواب۔
کہ زندگی محبت سے بنی ہے،
نہ کہ ضرورت کے پیمانوں سے۔

پروفیسر اور سی ٹی ائی

 

وہ پروفیسر،
جو پچھلے بیس سال سے
اسی بوسیدہ کتاب کے صفحے پلٹتا ہے،
جس کی روشنائی مدھم ہو چکی،
وہ آج پھر
اپنی عظمت کا تاج سر پر سجائے
انٹرویو کے کمرے میں بیٹھا ہے۔

یہ نوجوان،
زندگی کا پہلا انٹرویو دینے آیا،
آنکھوں میں خواب،
دل میں دھڑکنوں کا شور لیے،
مگر کنفیوز،
کیوں کہ سوال وہ ہیں
جو چالیس سال پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔

وہ اپنی علمیت کا رعب جماتے ہیں،
سوشل میڈیا پر اپنی تعریفیں
بکھیرتے ہیں،
مگر حقیقت میں
یہ سوالات، یہ خیالات
کب کے دفن ہونے چاہیے تھے۔

پروفیسر،
ہر عقل کا ٹھیکیدار نہیں،
وقت بدل چکا ہے،
یہ نوجوان،
یہ سی ٹی آئی،
قابلیت کا نیا معیار ہیں۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا