تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہے، اور اساتذہ اس نظام کا مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ ایک اچھا استاد نہ صرف بچوں کو علم دیتا ہے بلکہ اُن کے کردار کی تشکیل بھی کرتا ہے۔ لیکن جب ایک استاد خود ذہنی مریض ہو، یا اپنی ذاتی ناکامیوں اور مسائل سے لڑ رہا ہو، تو وہ بچوں کے مستقبل کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ ایسے اساتذہ، جو اپنی نفسیاتی حالتوں کے باعث بچوں کو ذہنی اور جذباتی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں، معاشرتی ترقی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
مذہبی جنونیت کا شکار اساتذہ
بعض اساتذہ مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے عقائد کو بچوں پر مسلط
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی سوال کو ایک چیلنج
سمجھتے ہیں اور طلبہ کی تجسس کی صلاحیت کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور
پر، ایک استاد جو مذہبی جنونیت میں مبتلا ہو، وہ بچوں کے ہر سوال کو ایک گناہ سمجھ
کر اُنہیں سختی سے روکتا ہے۔ ایسی تعلیم، جہاں سوال کرنے کی آزادی نہ ہو، بچوں کو
صرف روایتی سوچ کے سانچے میں ڈھالتی ہے، اور اُن کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتیں
ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف بچوں کے تعلیمی معیار کو کمزور کرتا ہے بلکہ
اُنہیں ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔
موازنہ کرنے والے اساتذہ
کچھ اساتذہ اپنی ذاتی زندگی میں دوسروں سے موازنہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہوتے
ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو اُن کی صلاحیتوں کی بجائے دوسروں کی کامیابیوں کے
آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ایسے اساتذہ بچوں کو ہمیشہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ ناکام
ہیں کیونکہ اُن کے پاس وہ مادی وسائل نہیں جو دنیا کے کامیاب لوگوں کے پاس ہیں۔
ایک استاد جو اپنے شاگردوں سے یہ کہے کہ "تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ
تمہاری زندگی میں وہ سہولتیں نہیں جو فلاں ملک کے بچوں کے پاس ہیں" بچوں کو
اپنی صلاحیتوں سے مایوس کر دیتا ہے۔ اس موازنہ کا رویہ بچوں کے اندر خود اعتمادی
کی کمی اور مایوسی کو جنم دیتا ہے، جو اُن کی زندگی بھر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو
سکتی ہے۔
شک میں مبتلا اساتذہ
ذہنی دباؤ اور بدگمانی کے شکار اساتذہ، اپنے شاگردوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے
ہیں۔ وہ ہر حرکت کو ناپسندیدگی اور مخالفت کے طور پر لیتے ہیں، اور طلبہ کو شک کی
بنیاد پر ذلیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک استاد جو اپنے طلبہ کو ہمیشہ یہ کہتا
ہے کہ "تم لوگ میرا مذاق اُڑا رہے ہو" یا "تم میری بات نہیں
سنتے"، دراصل خود عدم تحفظ اور بدگمانی کا شکار ہوتا ہے۔ یہ رویہ بچوں کے لیے
جذباتی طور پر تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کو غیر محفوظ اور استاد سے دور محسوس
کرنے لگتے ہیں۔
معاشرتی دباؤ کا شکار اساتذہ
کچھ اساتذہ اپنے اردگرد کے معاشرتی حالات اور دباؤ کا شکار ہو کر تعلیم دیتے ہیں۔
اُنہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ مادی چیزیں اور معاشرتی مقام ہی کامیابی کا واحد ذریعہ
ہیں۔ وہ بچوں کو ہمیشہ یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی میں کامیابی کا مطلب پیسہ اور
تعلقات ہیں۔ ایسے اساتذہ بچوں کی سوچ کو ایک محدود دائرے میں قید کر دیتے ہیں اور
محنت، کردار اور علم کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ
بچے اپنی محنت اور قابلیت کی قدر نہیں کرتے اور صرف مادی کامیابیوں کے پیچھے
بھاگتے ہیں۔
معاشرتی حل اور تجاویز
ذہنی طور پر غیر متوازن اور مریض اساتذہ نہ صرف اپنے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پوری
نسل کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ ایسے اساتذہ کے اثرات بچوں کی ذہنی اور تعلیمی نشوونما
پر انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی نفسیاتی حالتوں
کا باقاعدگی سے جائزہ لیں اور اُنہیں مناسب تربیت فراہم کریں۔ والدین کو بھی اس بات
کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی استاد بچوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرتا ہے،
تو فوری طور پر اس کی شکایت کی جائے۔ اس کے علاوہ، اساتذہ کے لیے لازمی طور پر ایک
تربیتی نظام ہونا چاہیے جہاں اُنہیں ذہنی دباؤ اور مایوسی سے نمٹنے کے طریقے
سکھائے جائیں۔
استاد کا کردار بچوں کی زندگی میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر ایک استاد ذہنی طور پر
بیمار ہو یا اپنی ذاتی زندگی کی ناکامیوں کو کلاس روم میں لے آئے، تو وہ بچوں کے
مستقبل کو برباد کر سکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو ایسے اساتذہ سے بچانے کے لیے مضبوط
تربیتی اور نگرانی کے نظامات قائم کیے جائیں تاکہ نئی نسل کو ایک بہتر، روشن اور
کامیاب مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
Excellent message
ReplyDeleteExcellent approach
ReplyDelete