Visitors

Sunday, October 13, 2024

زندگی سے پیار کرنے والوں کے سنگ بیٹھو

 

 

 


 

زندگی سے پیار کرنے والوں کے سنگ بیٹھو
خوابوں کو تعبیر دینے والوں کے سنگ بیٹھو

نفرت کا کاروبار جو کرتے ہیں ہر پل
بچو اُن سے، جینے والوں کے سنگ بیٹھو

اندھیروں سے ڈرتے ہو تو نہ جاؤ وہاں
خود کو سنوارنے والوں کے سنگ بیٹھو

زندگی کی تلخیوں سے جب تھک جاؤ تم
مسکراہٹ جگانے والوں کے سنگ بیٹھو

نفرتیں بانٹنے والے محبت کا کیا جانیں
دلوں کو جوڑنے والوں کے سنگ بیٹھو

روشنی بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو
خوشبو میں ڈھلنے والوں کے سنگ بیٹھو

جو زندگی کو مسکراہٹوں سے بھر دیتے
آنسوؤں کی چادر چیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

مشکلوں میں ہمت کی مثال بن کر آتے
دل کی گہرائیوں میں اُترنے والوں کے سنگ بیٹھو

محبت کی زبان سے دلوں کو جوڑتے
دوریوں کو مٹانے والوں کے سنگ بیٹھو

زندگی کی راہوں میں چمکتے تاروں کی طرح
ایسی روشنی بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

آؤ، مل کر زندگی کا جشن منائیں
خوشیوں کے رنگ بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

Saturday, October 12, 2024

ماضی، حال اور مستقبل


 

 

  ماضی، حال اور مستقبل کے درمیاں
اک بے آواز دریا بہتا ہے
ماضی کے کنارے پر
بوڑھے درختوں کی چھاؤں میں
پرانے خواب، پرانی باتیں
گھنے سایے، پر سکون لمحے
زندگی تھی آہستہ
اور وقت، اک پرانا دوست

حال کے ساحل پر
نئی نسل کی آوازیں گونجتی ہیں
بےچینی کی لہر
آگے بڑھنے کی چاہ
جدیدیت کی کشتیوں میں
نئے خوابوں کا بوجھ
وقت کی رفتار سے لڑتی
بدلتی، سنبھلتی

مستقبل، اک دھندلی لہر
جو پاس نہیں آتی
نئی نسل کی نگاہوں میں
ایک چمکتا ہوا ستارہ
جسے چھونے کی کوشش
اور ماضی کی بیڑیاں
جو قدموں کو روکتی ہیں
آگے بڑھنے سے، آزاد ہونے سے

پرانے لوگ
ماضی کے دامن میں لپٹے
اپنے وقت کی خوبصورتی
اور اپنی زندگی کی کہانیوں میں گم
نئے دور کو سمجھ نہ پاتے
اور نئی نسل
ماضی کی باتوں کو
بوجھ سمجھ کر پھینک دیتی ہے

دریا کے دونوں کنارے
ہمیشہ الگ رہتے ہیں
نہ ماضی حال میں گھلتا ہے
نہ حال ماضی کو بدل سکتا ہے
مگر وقت، دریا کی طرح
بہتا رہتا ہے
بے آواز، بے رنگ
بس چلتا رہتا ہے
نئی نسل کو اگلے سفر کی طرف
اور پرانی نسل کو ماضی کے خوابوں میں دفن کرتا ہوا۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

 

گاؤں کی مٹی


 

 

 

 

 

 

 میں شہر کی روشنیوں میں، 
خواب تلاش کرنے نکلا تھا،
ان گلیوں میں، جہاں ہر طرف چمک تھی،
رنگ تھے،
پر سکون نہیں تھا۔


گاؤں کی مٹی،
جہاں کبھی بچپن کے قدموں کے نشان تھے،
ماں کی گود تھی،
باپ کے سائے تھے،
وہ سب پیچھے رہ گئے۔

شہر کی دوڑ،
ایک ایسی دوڑ ہے،
جہاں ہر کوئی جیتنا چاہتا ہے،
مگر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں،
کسی کے دل میں چین نہیں۔

وقت گزرتا گیا،
بال سفید ہوئے،
جسم بوجھل ہوا،
اور دل پھر سے اس مٹی کو چاہنے لگا،
جو کبھی میری اپنی تھی۔

اب جب رات کو تنہائی میں،
شہر کی سڑکوں پر چلتا ہوں،
وہی پرانی گلیاں یاد آتی ہیں،
جہاں قدموں نے کھیلنا سیکھا تھا،
جہاں دل نے محبت کا پہلا سبق پڑھا تھا۔

زندگی کے اس سفر میں،
سب کچھ پایا،
پر جو سکون، جو چین،
گاؤں کی مٹی میں تھا،
وہ کہیں نہ ملا۔

اب واپس جانا چاہتا ہوں،
اس مٹی میں دفن ہونا چاہتا ہوں،
جہاں زندگی نے پہلا سانس دیا تھا،
جہاں شاید،
آخری سکون ملے۔

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

 

الجھے ہوئے لوگ









 ہم کیوں ہیں الجھے ہوئے؟
مذہب، سماج، اور تعلقات میں
کیوں ہیں یہ رشتے بکھرے ہوئے؟
کیوں ہے دلوں میں نفرت کی آگ؟

نوجوان ہوں یا بزرگ ہمارے،
سب ہیں ماضی، حال، اور مستقبل کے مارے
کبھی روایتوں میں قید، کبھی خواہشوں کے پیچھے،
بھاگتے ہیں، بھٹکتے ہیں، اک دوجے سے دور دور رہتے ہیں

کبھی مذہب کا نام لے کر،
کبھی سماج کی رسمیں تھام کر،
ہم الجھتے جاتے ہیں رستوں میں،
اور دوری بڑھتی ہے دلوں کے درمیان

نہ حال کا سکون، نہ مستقبل کی امید،
ماضی کی زنجیروں میں ہیں جکڑے ہوئے
کبھی سوچتے ہیں چھوڑ دیں سب کو،
کبھی چاہتے ہیں ساتھ کسی کا، جو سمجھ لے ہمیں

کیوں نہ ہم یہ بوجھ ہلکا کریں؟
کیوں نہ پیار کو اپنا مسلک کریں؟
سچائی اور محبت کو بنائیں زندگی،
کہیں نہ الجھیں، بس خوشی پائیں ہر گھڑی

آؤ، مل بیٹھیں، بات کریں،
دل کی باتوں کو آزاد کریں،
ماضی اور مستقبل کی فکر چھوڑیں،
حال کو خوبصورتی سے جی لیں، سکون پائیں، اور سب کو سکون دیں