Visitors

Saturday, August 2, 2025

زندگی کی واپسی (افسانہ)

کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی۔ ایسی خاموشی، جو موت سے ذرا پہلے آ کر دل کے کسی سنسان کونے میں بیٹھ جاتی ہے اور سانسوں کے بجتے ساز کو دھیما کر دیتی ہے۔ احمد کا جسم بستر پر بے جان سا پڑا تھا۔ آکسیجن ماسک سے ہلکی ہلکی سانسوں کی مدھم آواز سنائی دے رہی تھی۔ نرس آئی، اس کی نبض چیک کی، آکسیجن کا بہاؤ بڑھایا، اور آہستگی سے دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ لیکن احمد کے بند پلکوں کے پیچھے ایک ہلچل سی تھی، جیسے کوئی سوئی ہوئی روشنی جاگنے لگی ہو۔ دفعتاً اندھیرے میں ایک آہٹ ہوئی، جیسے کسی نے آ کر اس کے دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔ ایک سوال ابھرا: "اگر ایک بار پھر موقع ملے زندگی کو جینے کا، وہ زندگی جو تمہاری تھی، تو کیا تم قبول کرو گے؟" احمد نے کوئی جواب نہ دیا، مگر اس کی روح میں ہلکی سی جنبش ہونے لگی، جیسے کوئی بھولی بسری یاد دھیرے دھیرے آنکھیں کھول رہی ہو۔ روشنی اور سائے کے درمیان ایک منظر ابھرا۔ احمد نے آنکھیں بند کیے کسی کو آتے دیکھا — سفید لباس میں، نرم چال سے چلتا ہوا، نگاہوں میں سکون لیے۔

موت نے کہا، "بس کچھ پل باقی ہیں احمد۔ بس ذرا سا فاصلہ ہے تمہارے اور میرے درمیان۔" پھر دوسری طرف ایک چمکدار سایہ نمودار ہوا، جیسے روشنی نے خود کو مجسم کر لیا ہو۔ وہ زندگی تھی۔ اس نے کہا، "نہیں، وہ ابھی جاگ سکتا ہے۔ وہ ابھی جی سکتا ہے۔ اسے موقع دو۔" احمد کی روح نے سوال کیا، "کیا واقعی میرے لیے کچھ باقی ہے؟ میں تو برسوں سے صرف زندہ رہا ہوں، جیا نہیں۔" زندگی نے ہنس کر جواب دیا، "میں نے کئی بار آواز دی، تم نے سنا نہیں۔ تم نے خود کو دفتری حاضری، یوٹیلٹی بل، دوپہر کی چائے، اور قسطوں کی ہتھکڑیوں میں قید کر لیا۔ مگر میں تب بھی تمہارے اندر موجود رہی — تمہارے گٹار میں، تمہارے ادھورے شعروں میں، تمہارے خوابوں میں۔" احمد نے دھیرے سے کہا، "وہ خواب... جو میں نے آخری بار اس دن دیکھے تھے، جب میرا پہلا بچہ پیدا ہوا تھا۔ تب میں نے خود سے کہا تھا: خوابوں کا وقت ختم، اب ذمہ داری شروع۔"

زندگی اس کے قریب آئی اور نرمی سے بولی، "ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ تم خود کو دفن کر دو۔ تم جو بننا چاہتے تھے، وہ اب بھی تم بن سکتے ہو۔ بس ایک ہاں چاہیے۔" تبھی موت نے قدم آگے بڑھایا اور کہا، "یاد رکھو احمد، میں بہت نرم ہوں، بہت سادہ۔ میرے بعد نہ بل آتے ہیں، نہ تھکن، نہ بھاگ دوڑ۔ صرف سکون ہوتا ہے۔" زندگی نے جواب دیا، "لیکن میرے بعد وہ سب ہوتا ہے، جو تم نے صرف محسوس کیا، مگر کبھی چھوا نہیں۔ وہ گیت، وہ پہاڑ، وہ عشق... وہ تم۔" موت نے کہا، "چلو احمد، تھک گئے ہو نا؟" زندگی نے پکارا، "چلو احمد، جاگ لو نا۔"

احمد کی پلکوں کے نیچے نمی کی ایک بوند ٹھہر گئی۔ اس نے جیسے دل کے اندر سے صدیوں پرانی زنجیر توڑی اور بس اتنا کہا، "میں تھکا ضرور ہوں، مگر مرا نہیں۔ میں جینا چاہتا ہوں... اپنی زندگی۔" تب روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ احمد کی آنکھیں کھل گئیں۔ نرس چونک گئی، قریب آئی اور بولی، "آپ جاگ گئے؟" احمد نے ہولے سے مسکرایا۔ اس کی آواز دھیمی، مگر پُرعزم تھی: "نہیں، اب جاگا ہوں۔ اب میں اپنی زندگی جینے والا ہوں۔"

  

1 comment: