پاکستان کے
آئین کے مطابق تعلیم، صحت اور سیکیورٹی ہر شہری کا بنیادی حق ہیں، اور ان کی
فراہمی ریاست کی آئینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ یہی بنیاد تھی جس پر ریاست
عوام سے مختلف نوعیت کے ٹیکسز، محصولات اور ڈیوٹیاں لیتی ہے تاکہ شہریوں کو ایک
باوقار، محفوظ اور باعلم زندگی فراہم کی جا سکے۔ مگر بدقسمتی سے یہ آئینی وعدے اب
محض کاغذی دعوے بن چکے ہیں۔ ریاست کی ترجیحات میں نہ تعلیم ہے، نہ صحت اور نہ ہی
عوامی تحفظ۔ اصل ترجیح اشرافیہ کا تحفظ، مراعات یافتہ طبقے کا تسلسل، اور عوامی
شعور کا انسداد بن چکی ہے۔
خاص طور پر
تعلیم کا شعبہ، جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، آج پاکستان میں بدترین
زوال کا شکار ہے۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض انتظامی غفلت یا مالی مشکلات کا
نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی منصوبہ بندی دکھائی دیتا ہے — ایک سازش جس کا
مقصد عوام کو باشعور شہری بننے سے روکنا ہے، تاکہ وہ حکمرانوں سے سوال نہ کر سکیں،
احتساب نہ مانگ سکیں، اور غلامی کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لیں۔
آج اگر پنجاب
کے کالج اساتذہ کی حالت پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کی نظر میں
استاد کی کیا وقعت رہ گئی ہے۔ ان کی تنخواہیں سالوں سے منجمد ہیں، کنوینس الاؤنس،
بجلی کی سبسڈی، صحت سہولیات اور دیگر معمولی مراعات بھی ختم کر دی گئی ہیں۔
تنخواہوں میں کٹوتیاں، بے جا ٹیکسز، اور "ریبیٹس ریورسل" جیسے ذلت آمیز
حربے متعارف کروائے گئے ہیں۔ استاد اگر آواز اٹھائے تو اس پر انکوائری، شوکاز نوٹس
اور انتقامی کارروائیاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ گویا سوال کرنا جرم ہے، اور تعلیم
دینا ایک بغاوت!
یہ سب اس وقت
ہو رہا ہے جب حکمران طبقہ دن بہ دن اپنی مراعات میں اضافہ کر رہا ہے۔ حالیہ بجٹ
میں وفاقی وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں چھ سو گنا اضافہ کر دیا گیا،
جب کہ عام سرکاری ملازمین، خصوصاً تعلیم اور صحت سے جڑے افراد کے لیے محض 10 فیصد
اضافہ کیا گیا وہ بھی اس وقت جب مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
پیٹرول، بجلی، گیس، دوا، آٹا سب کچھ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے، مگر حکمرانوں کی
گاڑیاں نئی ہو رہی ہیں، دفاتر کی آرائش پر کروڑوں لگ رہے ہیں، اور پروٹوکول کے
قافلے لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔
مزید خطرناک
پہلو یہ ہے کہ ریاست تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کر کے انہیں پرائیویٹ
سیکٹر کے حوالے کر رہی ہے اور وہ پرائیویٹ سیکٹر اب صرف اہل افراد کے نہیں بلکہ ان
پڑھ، دولت مند اور بااثر لوگوں کے قبضے میں ہے جن کا مقصد تعلیم دینا نہیں بلکہ
تعلیم کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہ ادارے نصاب، امتحانات، تقرریاں، داخلے اور ڈگری سب
کچھ اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔ وہاں نہ میرٹ ہے، نہ شفافیت، نہ نظریاتی توازن۔ یوں
علم فروشی کو کاروبار میں بدلا گیا ہے، اور طالب علم محض ایک کسٹمر بن کر رہ گیا
ہے۔
یہ صورتحال اس
وقت زیادہ ہولناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انہی جعلی اور کاروباری تعلیمی
اداروں سے فارغ التحصیل افراد اب خود پالیسی ساز بن چکے ہیں۔ ریاست نے ادارے ان
لوگوں کے حوالے کر دیے ہیں جن کے لیے تعلیم کا مطلب صرف ڈگری ہے اور شعور صرف
خطرہ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ریاست پیچھے ہٹی اور غیر ریاستی عناصر، سرمایہ دار،
مذہبی گروہ، سیاسی خاندان اور بین الاقوامی این جی اوز نے تعلیم پر قبضہ کر لیا۔
وہی پڑھا رہے ہیں، وہی نصاب لکھ رہے ہیں، وہی اقدار طے کر رہے ہیں، اور وہی یہ
فیصلہ کر رہے ہیں کہ نئی نسل کو کیا سوچنا ہے، کیا نہیں سوچنا۔
یہی وہ روش تھی
جو ماضی میں کئی ریاستوں کے زوال کا سبب بنی۔ جب تعلیم کو نظریاتی ہتھیار بنا کر
عوام کو تقسیم کیا جاتا ہے، جب اداروں کو بیچا جاتا ہے، جب ملک کی فکری باگ ڈور
شعور دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے، تو پھر ریاستیں صرف معاشی نہیں، فکری اور
جغرافیائی طور پر بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
پاکستان کے
نوجوان جب یہ کہتے ہیں کہ "اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟" تو یہ صرف ایک
ذاتی مایوسی نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے۔ یہ اس ریاست کی ناکامی کا اعلان ہے
جس نے اپنے شہریوں کو اعتماد، راستہ، مقصد اور امید دینے کی بجائے ان سے سب کچھ
چھین لیا۔
ریاست اگر
واقعی اپنی بقا اور عوام کی بہتری چاہتی ہے تو اسے اب تقاریر سے آگے بڑھ کر حقیقی
اقدامات کرنا ہوں گے۔ اساتذہ کو معاشی تحفظ دینا ہوگا، اداروں کو خودمختاری دینا
ہوگی، تعلیم کو کاروبار سے نکال کر خدمت کے دائرے میں لانا ہوگا۔ نصاب کو آزاد،
جامع اور انسان دوست بنانا ہوگا، نہ کہ مخصوص طبقے، فرقے یا نظریے کی خدمت کا آلہ۔
پرائیویٹائزیشن کے نام پر جو تباہی مچائی جا رہی ہے، اسے روکنا ہوگا اور عوامی
اداروں کو دوبارہ فعال، باوقار اور مؤثر بنانا ہوگا۔
کیونکہ قومیں
اس وقت مٹتی ہیں جب وہ تعلیم کو دفن کر دیتی ہیں، اور جہالت کو جھنڈا تھما دیتی
ہیں۔ افسوس کہ آج ہماری ریاست اسی راہ پر گامزن ہے جہاں شعور ایک خطرہ اور
اندھی تقلید ایک خوبی بن چکی ہے۔
خوبصورت مضمون۔ تعلیمی اداروں کی ناکامی کی وجوہات کی درست نشاندہی کی ہے۔
ReplyDeleteاساتذہ کے مسائل کی سو فیصد درست ترجمانی
ReplyDelete