زندگی میں خوشیوں کا حصول بعض اوقات چھوٹے چھوٹے اعمال سے ممکن ہوتا ہے جنہیں ہم عام طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک عمل ہے "تعریف کرنا" اور "مسکرانا"۔ یہ دونوں انسانی جذبات کے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف ہماری اپنی زندگی میں رنگ بھرتے ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی محبت اور خوشیوں کی روشنی بکھیر دیتے ہیں۔ مذہب اسلام نے بھی ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم دوسروں کی خوبیوں کو سراہیں اور اپنے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رکھیں۔
حضور پاک ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو یہ اصول واضح نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے اصحاب کی تعریف کی اور ان کے اچھے اعمال کی حوصلہ افزائی کی۔ اس عمل سے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہمت بڑھتی تھی بلکہ معاشرے میں محبت اور امن کا پیغام بھی پھیلتا تھا۔
جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تعریف اور مسکراہٹ کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں لوگوں کا ایک دوسرے کی تعریف کرنا اور اجنبیوں کے ساتھ بھی مسکرا کر بات کرنا معمول کی بات ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی تعریفیں اور مسکراہٹیں نہ صرف کسی کا دن بنا سکتی ہیں بلکہ معاشرتی تعلقات کو بھی مضبوط بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معاشرہ دنیا بھر میں اپنی خوشگوار اور دوستانہ رویے کے لیے مشہور ہے۔
لیکن جب ہم اپنے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف منظر نامہ نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں میں کنجوسی اور سرد مہری نمایاں ہے۔ لوگوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی کی تعریف کریں گے تو شاید ہمارا وقار کم ہو جائے گا یا دوسرا شخص خود کو ہم سے بہتر سمجھے گا۔ یہ رویہ ہماری معاشرتی زندگی میں سرد مہری اور بداعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کے موجودہ حالات، مہنگائی، اور روزمرہ کی مشکلات نے لوگوں کے دلوں کو سخت اور چہروں سے مسکراہٹیں غائب کر دی ہیں۔
موجودہ حالات نے لوگوں کو اس قدر مصروف اور پریشان کر دیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی خوبیوں کو سراہنے کا وقت اور حوصلہ بھی نہیں پاتے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے افراد میں چڑچڑاپن اور بد مزاجی نے جگہ بنا لی ہے، جس کی وجہ سے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں اور دلوں میں خوشی کے جذبات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تعریف اور مسکراہٹ صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارے اپنے دلوں کو بھی خوشیوں سے بھر دیتی ہیں۔ جب ہم کسی کی تعریف کرتے ہیں یا کسی کے ساتھ مسکرا کر بات کرتے ہیں، تو یہ عمل ہماری روح کو سکون اور دل کو راحت پہنچاتا ہے۔
اسلام میں تعریف اور مسکراہٹ کی حوصلہ افزائی اس بات کی غماز ہے کہ یہ عمل نہ صرف ہمارے دینی فرائض کا حصہ ہے بلکہ ہماری روحانی اور معاشرتی زندگی کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "مسکرا کر ملنا صدقہ ہے"۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ صرف ایک مسکراہٹ بھی دوسروں کے دل میں خوشی کی روشنی بھر سکتی ہے اور یہ عمل خدا کے نزدیک صدقے کے برابر ہے۔
اسی طرح، ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگوں نے اس اصول کو اپنایا ہوا ہے۔ جاپان جیسے ملک میں، تعریف اور دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے کا رواج ہے۔ جاپانی معاشرہ اپنی محنت، دیانت داری اور دوسروں کی تعریف کرنے کی عادت کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ تعریف کرنے سے نہ صرف دوسروں کو خوشی ملتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اگر ہم پاکستانی معاشرے میں بھی اس رویے کو فروغ دیں تو ہمیں حیرت انگیز نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایک استاد جب اپنے طالب علم کی محنت کو سراہتا ہے، تو وہ طالب علم خود کو اہم محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر مزید محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح، اگر ہم اپنے گھروں میں، دفاتر میں، یا عام زندگی میں دوسروں کی تعریف کرنے کی عادت ڈالیں تو یہ عمل ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنائے گا اور دلوں میں محبت و احترام پیدا کرے گا۔
دوسری طرف، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگائی اور معاشرتی دباؤ نے لوگوں کے رویوں میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ لوگ اپنی پریشانیوں میں اس قدر مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہیں دوسروں کی خوبیوں کو سراہنے کا وقت نہیں ملتا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال، جیسے کہ کسی کی تعریف کرنا یا اس کے ساتھ مسکرا کر بات کرنا، ہماری زندگی میں خوشی اور سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جو ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں محبت اور ہمدردی کی روشنی بھرتے ہیں۔
حضرت علیؓ کی زندگی بھی ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو سراہتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل ان کے دل کی پاکیزگی اور محبت کی علامت تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اس اصول کو اپنایا کہ دوسروں کی تعریف کرنا نہ صرف ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے بلکہ ہمارے دل کو بھی سکون عطا کرتا ہے۔
دوسرے مذاہب میں بھی تعریف اور مسکراہٹ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ عیسائیت میں بھی دوسروں کی تعریف کرنا اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آنا ایک اہم اصول سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی کہ وہ ایک دوسرے کی محبت اور تعریف کے ذریعے دنیا میں امن اور خوشی کا پیغام پھیلائیں۔ اسی طرح، ہندو دھرم میں بھی دوسروں کی خوبیوں کو سراہنے اور عزت دینے کا رواج ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور کی تیز رفتار زندگی میں ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرتی اور روحانی زندگی کے لیے بے حد اہم ہیں۔ تعریف کرنا اور مسکرانا ہمیں دوسروں کے دلوں کے قریب لاتے ہیں اور ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔
ہمیں آج سے ہی اس عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ جہاں کہیں کسی کی کوئی خوبی دل کو بھائے، اسے سراہنے میں دیر نہ کریں۔ یہ چھوٹا سا عمل نہ صرف دوسروں کے چہرے پر مسکراہٹ لائے گا بلکہ ہمارے دل کو بھی خوشیوں سے بھر دے گا۔ اور یوں ہم بھی ان ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایک خوشگوار اور مثبت معاشرہ قائم کر سکیں گے، جہاں تعریف کے بول اور مسکراہٹیں ہماری زندگی کا حصہ ہوں گی۔
تو آئیے، آج سے ہی یہ عہد کریں کہ ہم اپنے دل کی کنجوسی کو ختم کریں گے اور دوسروں کی تعریف کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنائے گا بلکہ ہمارے دلوں میں بھی محبت اور سکون کی روشنی بھر دے گا۔
No comments:
Post a Comment