Visitors

Sunday, September 1, 2024

تاریخ کے صفحات میں دفن مزدوروں کی قربانیاں



تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ طاقتور حکمرانوں کے نام سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں، لیکن وہ غلام اور مزدور جنہوں نے زمین پر عظیم الشان عمارتیں بنائیں، وہ ہمیشہ تاریخ کے حاشیوں میں ہی گم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ ان مزدوروں اور غلاموں کو یاد نہیں رکھتی جنہوں نے پسینہ بہا کر اور خون کے قطروں سے عظیم الشان امارات کھڑی کیں ۔ ۔دنیا کے عظیم ترین عجائبات میں شمار ہونے والی عمارتوں کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بنانے میں ہزاروں مزدوروں اور غلاموں نے اپنی زندگیاں قربان کیں۔ مثال کے طور پر، مصر کے عظیم اہرام جو دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتے ہیں، ان کی تعمیر میں ہزاروں غلاموں اور مزدوروں نے دن رات محنت کی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ اہرام فرعونوں کے مقبرے تھے، اور فرعونوں کے نام ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں، لیکن ان مزدوروں کے نام کہیں درج نہیں ہیں جنہوں نے ان عظیم الشان عمارتوں کو ممکن بنایا۔
اسی طرح تاج محل، جو دنیا کی سب سے خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے، اس کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شاہجہان نے یہ عمارت اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروائی، لیکن وہ ہزاروں مزدور جو دن رات کام کرتے رہے، ان کے نام تاریخ کے صفحات سے مٹا دیے گئے۔
یہی حال روم کے عظیم کولوزیئم کا بھی ہے، جو قدیم رومی سلطنت کا ایک عظیم نشان ہے۔ یہ عمارت بھی غلاموں کی محنت کا نتیجہ ہے، لیکن کولوزیئم کا ذکر کرتے وقت ہمیشہ رومی حکمرانوں کے نام لیے جاتے ہیں، جنہوں نے یہ تعمیر کروائی تھی۔ تاریخ میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کو ہمیشہ طاقتور لوگ لکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو اقتدار میں ہوتے ہیں، وہ اپنی کہانیاں لکھواتے ہیں اور اپنے کارناموں کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو زمین پر دن رات محنت کرتے ہیں، ان کی آواز تاریخ کے صفحات تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم تاریخ کی کتابوں میں صرف بادشاہوں، حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کے نام دیکھتے ہیں، جبکہ وہ مزدور اور غلام جنہوں نے اپنی زندگیاں عظیم عمارتوں کی تعمیر میں لگا دیں، وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔
تاریخ کا یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم کس طرح سے طاقت اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو کر حقیقی ہیروز کو بھول جاتے ہیں۔ یہ غلام اور مزدور وہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، لیکن ان کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ شہرۂ آفاق دیوار چین بھی اس کی ایک مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں لاکھوں مزدوروں نے حصہ لیا، اور ان میں سے ہزاروں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دیوار چین کی عظمت کا ذکر تو کیا جاتا ہے، لیکن ان مزدوروں کی قربانیوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
اسی طرح، دنیا کے قدیم ترین اور عظیم ترین شہر، بابل، کی تعمیر بھی غلاموں کی مرہون منت تھی۔ بابل کا باغ، جو دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا تھا، اس کی تعمیر میں بھی ہزاروں غلاموں نے حصہ لیا۔ لیکن بابل کی تاریخ میں ان غلاموں کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ تاریخ کے اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان غلاموں اور مزدوروں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے عظیم عمارتیں بنائیں اور تاریخ کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین پر پسینہ بہا کر اور خون کے قطروں سے تاریخ رقم کی، لیکن ان کے نام ہمیشہ کے لیے بھلا دیے گئے۔ آج کے دور میں بھی، جب ہم جدید عمارتوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمارتیں بھی مزدوروں اور کاریگروں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں ان کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی محنت اور قربانیوں کو یاد رکھ سکیں۔
مجموعی طور پر، تاریخ کا یہ ستم ظریفانہ رویہ ایک سبق ہے کہ ہمیں ہمیشہ انصاف کے ساتھ تاریخ کو لکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے زمین پر عظیم کام کیے۔ تاریخ کو صرف طاقتوروں کی کہانی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ کمزوروں اور مظلوموں کی قربانیوں کا بھی اعتراف ہونا چاہیے۔ جب تک ہم تاریخ کو انصاف کے ساتھ نہیں لکھیں گے، تب تک حقیقی ہیروز کے نام تاریخ کے صفحات میں گم ہی رہیں گے۔
ہمیں تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جو ہمیشہ کے لیے گمنام ہو گئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کی بنیاد رکھی اور زمین پر عظیم عمارتیں کھڑی کیں، لیکن ان کے نام کہیں نہیں ملتے۔ ہمیں ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کو تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ان کی یاد ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔

No comments:

Post a Comment