Visitors

Monday, September 23, 2024

زندگی سے پیار کرنے والوں کے سنگ بیٹھو




زندگی سے پیار کرنے والوں کے سنگ بیٹھو
خوابوں کو تعبیر دینے والوں کے سنگ بیٹھو

نفرت کا کاروبار جو کرتے ہیں ہر پل
بچو اُن سے، جینے والوں کے سنگ بیٹھو

اندھیروں سے ڈرتے ہو تو نہ جاؤ وہاں
خود کو سنوارنے والوں کے سنگ بیٹھو

زندگی کی تلخیوں سے جب تھک جاؤ تم
مسکراہٹ جگانے والوں کے سنگ بیٹھو

نفرتیں بانٹنے والے محبت کا کیا جانیں
دلوں کو جوڑنے والوں کے سنگ بیٹھو

روشنی بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو
خوشبو میں ڈھلنے والوں کے سنگ بیٹھو

جو زندگی کو مسکراہٹوں سے بھر دیتے
آنسوؤں کی چادر چیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

مشکلوں میں ہمت کی مثال بن کر آتے
دل کی گہرائیوں میں اُترنے والوں کے سنگ بیٹھو

محبت کی زبان سے دلوں کو جوڑتے
دوریوں کو مٹانے والوں کے سنگ بیٹھو

زندگی کی راہوں میں چمکتے تاروں کی طرح
ایسی روشنی بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

آؤ، مل کر زندگی کا جشن منائیں
خوشیوں کے رنگ بکھیرنے والوں کے سنگ بیٹھو

 

از قلم: ڈاکٹر اسد رضا

Friday, September 6, 2024

مسکراہٹ اور تعریف


زندگی میں خوشیوں کا حصول بعض اوقات چھوٹے چھوٹے اعمال سے ممکن ہوتا ہے جنہیں ہم عام طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک عمل ہے "تعریف کرنا" اور "مسکرانا"۔ یہ دونوں انسانی جذبات کے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف ہماری اپنی زندگی میں رنگ بھرتے ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی محبت اور خوشیوں کی روشنی بکھیر دیتے ہیں۔ مذہب اسلام نے بھی ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم دوسروں کی خوبیوں کو سراہیں اور اپنے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رکھیں۔

حضور پاک ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو یہ اصول واضح نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے اصحاب کی تعریف کی اور ان کے اچھے اعمال کی حوصلہ افزائی کی۔ اس عمل سے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہمت بڑھتی تھی بلکہ معاشرے میں محبت اور امن کا پیغام بھی پھیلتا تھا۔

جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تعریف اور مسکراہٹ کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں لوگوں کا ایک دوسرے کی تعریف کرنا اور اجنبیوں کے ساتھ بھی مسکرا کر بات کرنا معمول کی بات ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی تعریفیں اور مسکراہٹیں نہ صرف کسی کا دن بنا سکتی ہیں بلکہ معاشرتی تعلقات کو بھی مضبوط بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معاشرہ دنیا بھر میں اپنی خوشگوار اور دوستانہ رویے کے لیے مشہور ہے۔

لیکن جب ہم اپنے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف منظر نامہ نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں میں کنجوسی اور سرد مہری نمایاں ہے۔ لوگوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی کی تعریف کریں گے تو شاید ہمارا وقار کم ہو جائے گا یا دوسرا شخص خود کو ہم سے بہتر سمجھے گا۔ یہ رویہ ہماری معاشرتی زندگی میں سرد مہری اور بداعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کے موجودہ حالات، مہنگائی، اور روزمرہ کی مشکلات نے لوگوں کے دلوں کو سخت اور چہروں سے مسکراہٹیں غائب کر دی ہیں۔

موجودہ حالات نے لوگوں کو اس قدر مصروف اور پریشان کر دیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی خوبیوں کو سراہنے کا وقت اور حوصلہ بھی نہیں پاتے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے افراد میں چڑچڑاپن اور بد مزاجی نے جگہ بنا لی ہے، جس کی وجہ سے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں اور دلوں میں خوشی کے جذبات کم ہوتے جا رہے ہیں۔

مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تعریف اور مسکراہٹ صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارے اپنے دلوں کو بھی خوشیوں سے بھر دیتی ہیں۔ جب ہم کسی کی تعریف کرتے ہیں یا کسی کے ساتھ مسکرا کر بات کرتے ہیں، تو یہ عمل ہماری روح کو سکون اور دل کو راحت پہنچاتا ہے۔

اسلام میں تعریف اور مسکراہٹ کی حوصلہ افزائی اس بات کی غماز ہے کہ یہ عمل نہ صرف ہمارے دینی فرائض کا حصہ ہے بلکہ ہماری روحانی اور معاشرتی زندگی کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "مسکرا کر ملنا صدقہ ہے"۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ صرف ایک مسکراہٹ بھی دوسروں کے دل میں خوشی کی روشنی بھر سکتی ہے اور یہ عمل خدا کے نزدیک صدقے کے برابر ہے۔

اسی طرح، ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگوں نے اس اصول کو اپنایا ہوا ہے۔ جاپان جیسے ملک میں، تعریف اور دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے کا رواج ہے۔ جاپانی معاشرہ اپنی محنت، دیانت داری اور دوسروں کی تعریف کرنے کی عادت کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ تعریف کرنے سے نہ صرف دوسروں کو خوشی ملتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے۔

اگر ہم پاکستانی معاشرے میں بھی اس رویے کو فروغ دیں تو ہمیں حیرت انگیز نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایک استاد جب اپنے طالب علم کی محنت کو سراہتا ہے، تو وہ طالب علم خود کو اہم محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر مزید محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح، اگر ہم اپنے گھروں میں، دفاتر میں، یا عام زندگی میں دوسروں کی تعریف کرنے کی عادت ڈالیں تو یہ عمل ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنائے گا اور دلوں میں محبت و احترام پیدا کرے گا۔

دوسری طرف، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگائی اور معاشرتی دباؤ نے لوگوں کے رویوں میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ لوگ اپنی پریشانیوں میں اس قدر مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہیں دوسروں کی خوبیوں کو سراہنے کا وقت نہیں ملتا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال، جیسے کہ کسی کی تعریف کرنا یا اس کے ساتھ مسکرا کر بات کرنا، ہماری زندگی میں خوشی اور سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جو ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں محبت اور ہمدردی کی روشنی بھرتے ہیں۔

حضرت علیؓ کی زندگی بھی ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو سراہتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل ان کے دل کی پاکیزگی اور محبت کی علامت تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اس اصول کو اپنایا کہ دوسروں کی تعریف کرنا نہ صرف ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے بلکہ ہمارے دل کو بھی سکون عطا کرتا ہے۔

دوسرے مذاہب میں بھی تعریف اور مسکراہٹ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ عیسائیت میں بھی دوسروں کی تعریف کرنا اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آنا ایک اہم اصول سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی کہ وہ ایک دوسرے کی محبت اور تعریف کے ذریعے دنیا میں امن اور خوشی کا پیغام پھیلائیں۔ اسی طرح، ہندو دھرم میں بھی دوسروں کی خوبیوں کو سراہنے اور عزت دینے کا رواج ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور کی تیز رفتار زندگی میں ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرتی اور روحانی زندگی کے لیے بے حد اہم ہیں۔ تعریف کرنا اور مسکرانا ہمیں دوسروں کے دلوں کے قریب لاتے ہیں اور ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔

ہمیں آج سے ہی اس عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ جہاں کہیں کسی کی کوئی خوبی دل کو بھائے، اسے سراہنے میں دیر نہ کریں۔ یہ چھوٹا سا عمل نہ صرف دوسروں کے چہرے پر مسکراہٹ لائے گا بلکہ ہمارے دل کو بھی خوشیوں سے بھر دے گا۔ اور یوں ہم بھی ان ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایک خوشگوار اور مثبت معاشرہ قائم کر سکیں گے، جہاں تعریف کے بول اور مسکراہٹیں ہماری زندگی کا حصہ ہوں گی۔

تو آئیے، آج سے ہی یہ عہد کریں کہ ہم اپنے دل کی کنجوسی کو ختم کریں گے اور دوسروں کی تعریف کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنائے گا بلکہ ہمارے دلوں میں بھی محبت اور سکون کی روشنی بھر دے گا۔

Sunday, September 1, 2024

تاریخ کے صفحات میں دفن مزدوروں کی قربانیاں



تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ طاقتور حکمرانوں کے نام سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں، لیکن وہ غلام اور مزدور جنہوں نے زمین پر عظیم الشان عمارتیں بنائیں، وہ ہمیشہ تاریخ کے حاشیوں میں ہی گم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ ان مزدوروں اور غلاموں کو یاد نہیں رکھتی جنہوں نے پسینہ بہا کر اور خون کے قطروں سے عظیم الشان امارات کھڑی کیں ۔ ۔دنیا کے عظیم ترین عجائبات میں شمار ہونے والی عمارتوں کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بنانے میں ہزاروں مزدوروں اور غلاموں نے اپنی زندگیاں قربان کیں۔ مثال کے طور پر، مصر کے عظیم اہرام جو دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتے ہیں، ان کی تعمیر میں ہزاروں غلاموں اور مزدوروں نے دن رات محنت کی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ اہرام فرعونوں کے مقبرے تھے، اور فرعونوں کے نام ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں، لیکن ان مزدوروں کے نام کہیں درج نہیں ہیں جنہوں نے ان عظیم الشان عمارتوں کو ممکن بنایا۔
اسی طرح تاج محل، جو دنیا کی سب سے خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے، اس کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شاہجہان نے یہ عمارت اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروائی، لیکن وہ ہزاروں مزدور جو دن رات کام کرتے رہے، ان کے نام تاریخ کے صفحات سے مٹا دیے گئے۔
یہی حال روم کے عظیم کولوزیئم کا بھی ہے، جو قدیم رومی سلطنت کا ایک عظیم نشان ہے۔ یہ عمارت بھی غلاموں کی محنت کا نتیجہ ہے، لیکن کولوزیئم کا ذکر کرتے وقت ہمیشہ رومی حکمرانوں کے نام لیے جاتے ہیں، جنہوں نے یہ تعمیر کروائی تھی۔ تاریخ میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کو ہمیشہ طاقتور لوگ لکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو اقتدار میں ہوتے ہیں، وہ اپنی کہانیاں لکھواتے ہیں اور اپنے کارناموں کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو زمین پر دن رات محنت کرتے ہیں، ان کی آواز تاریخ کے صفحات تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم تاریخ کی کتابوں میں صرف بادشاہوں، حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کے نام دیکھتے ہیں، جبکہ وہ مزدور اور غلام جنہوں نے اپنی زندگیاں عظیم عمارتوں کی تعمیر میں لگا دیں، وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔
تاریخ کا یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم کس طرح سے طاقت اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو کر حقیقی ہیروز کو بھول جاتے ہیں۔ یہ غلام اور مزدور وہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، لیکن ان کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ شہرۂ آفاق دیوار چین بھی اس کی ایک مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں لاکھوں مزدوروں نے حصہ لیا، اور ان میں سے ہزاروں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دیوار چین کی عظمت کا ذکر تو کیا جاتا ہے، لیکن ان مزدوروں کی قربانیوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
اسی طرح، دنیا کے قدیم ترین اور عظیم ترین شہر، بابل، کی تعمیر بھی غلاموں کی مرہون منت تھی۔ بابل کا باغ، جو دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا تھا، اس کی تعمیر میں بھی ہزاروں غلاموں نے حصہ لیا۔ لیکن بابل کی تاریخ میں ان غلاموں کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ تاریخ کے اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان غلاموں اور مزدوروں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے عظیم عمارتیں بنائیں اور تاریخ کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین پر پسینہ بہا کر اور خون کے قطروں سے تاریخ رقم کی، لیکن ان کے نام ہمیشہ کے لیے بھلا دیے گئے۔ آج کے دور میں بھی، جب ہم جدید عمارتوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمارتیں بھی مزدوروں اور کاریگروں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں ان کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی محنت اور قربانیوں کو یاد رکھ سکیں۔
مجموعی طور پر، تاریخ کا یہ ستم ظریفانہ رویہ ایک سبق ہے کہ ہمیں ہمیشہ انصاف کے ساتھ تاریخ کو لکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے زمین پر عظیم کام کیے۔ تاریخ کو صرف طاقتوروں کی کہانی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ کمزوروں اور مظلوموں کی قربانیوں کا بھی اعتراف ہونا چاہیے۔ جب تک ہم تاریخ کو انصاف کے ساتھ نہیں لکھیں گے، تب تک حقیقی ہیروز کے نام تاریخ کے صفحات میں گم ہی رہیں گے۔
ہمیں تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنا چاہیے اور ان لوگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے جو ہمیشہ کے لیے گمنام ہو گئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کی بنیاد رکھی اور زمین پر عظیم عمارتیں کھڑی کیں، لیکن ان کے نام کہیں نہیں ملتے۔ ہمیں ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کو تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ان کی یاد ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔

Rohi TV Programme 31-08-2024 Live at 11.00 am


Complete Programe Link