Visitors

Monday, August 4, 2025

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران


پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ایک اہم چیلنج سے دوچار ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، جو نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ پالیسی سازوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ یہ کمی صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے اور دور رس اثرات ملک کے سماجی و اقتصادی مستقبل پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا تدارک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں کمی کے کئی اسباب ہیں، جنہیں مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ معاشی، سماجی اور تعلیمی عوامل۔ موجودہ اقتصادی صورتحال نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اور تعلیم بھی اس سے محفوظ نہیں رہی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث والدین کے لیے اپنے بچوں کی یونیورسٹی کی تعلیم کا خرچہ اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ فیسوں میں مسلسل اضافہ، ہاسٹل، کتابوں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات نے تعلیم کو عام لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے طلباء تعلیم ادھوری چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کی مالی مدد کر سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، تعلیمی معیار میں گراوٹ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کئی نئی یونیورسٹیاں بغیر مناسب منصوبہ بندی کے قائم کی گئی ہیں جہاں مناسب انفراسٹرکچر، تجربہ کار اساتذہ اور جدید سہولیات کا فقدان ہے۔ ایسی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنا طلباء کے لیے وقت اور پیسے کا ضیاع محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈگریاں روزگار کے میدان میں ان کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں زیادہ تر فیس جمع کرنے پر توجہ دیتی ہیں، جبکہ تعلیم کے معیار کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کا ایک بنیادی مقصد اچھی نوکری حاصل کرنا ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اکثر طویل عرصے تک بیروزگار رہتے ہیں، جس سے نوجوانوں میں مایوسی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر ڈگری کے بعد بھی روزگار کی کوئی ضمانت نہیں تو اعلیٰ تعلیم کا فائدہ کیا ہے۔ یہ سوچ طلباء کو یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے روک دیتی ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں جن میں روزگار کے مواقع کم ہیں۔

اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کا نصاب بھی جدید صنعتی اور عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ طلباء کو وہ مہارتیں نہیں سکھائی جاتیں جو آج کے دور میں ضروری ہیں، اور تحقیق کا رجحان بھی انتہائی کمزور ہے۔ لیبارٹریز، تحقیقاتی سہولیات اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے طلباء کو جدید مسائل پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا، جس سے ان کی علمی اور عملی صلاحیتیں محدود رہ جاتی ہیں۔ ٹیکنیکل اور ہنر پر مبنی تعلیم کے فروغ نے اگرچہ کچھ طلباء کو روزگار دلوانے میں مدد دی ہے، مگر اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ روایتی یونیورسٹی ڈگریوں کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان میں تعلیمی معیار کی گراوٹ بھی ایک تلخ حقیقت ہے جو نہ صرف داخلوں کی شرح میں کمی کا باعث بنی بلکہ پورے تعلیمی نظام کو متاثر کر رہی ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بھرتی کا معیار پست ہے اور ان کی تربیت پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ تحقیق کے میدان میں بھی صورتحال تشویشناک ہے؛ فنڈنگ کی کمی، سہولیات کا فقدان اور اشاعت کے محدود ذرائع تحقیق کے فروغ میں رکاوٹ ہیں۔ انفراسٹرکچر کی کمی جیسے کہ جدید لیبارٹریز، ڈیجیٹل لائبریریاں اور کمپیوٹر مراکز کی عدم دستیابی طلباء کی عملی تعلیم کو متاثر کرتی ہے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ یونیورسٹی فیسوں میں کمی کرے اور کم آمدنی والے طلباء کے لیے اسکالرشپس اور تعلیمی قرضے فراہم کرے تاکہ تعلیم ہر طبقے کے لیے قابلِ رسائی ہو۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یونیورسٹیوں کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ نصاب کو جدید صنعتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور جدید شعبوں جیسے مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں اور یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان اشتراک کو فروغ دیا جائے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومت کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی سرپرستی کرنی چاہیے اور یونیورسٹیوں کو کیریئر گائیڈنس سینٹرز کو فعال بنانا چاہیے تاکہ طلباء کو نوکریوں کے لیے تیار کیا جا سکے۔

یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں کمی اور تعلیمی معیار کی گراوٹ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے حکومت، تعلیمی اداروں اور معاشرے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم میں سرمایہ کاری، معیار کی بہتری اور روزگار کی فراہمی کے اقدامات ہی وہ پائیدار حل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کے مستقبل کو محفوظ اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔



 


Saturday, August 2, 2025

زندگی کی واپسی (افسانہ)

کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی۔ ایسی خاموشی، جو موت سے ذرا پہلے آ کر دل کے کسی سنسان کونے میں بیٹھ جاتی ہے اور سانسوں کے بجتے ساز کو دھیما کر دیتی ہے۔ احمد کا جسم بستر پر بے جان سا پڑا تھا۔ آکسیجن ماسک سے ہلکی ہلکی سانسوں کی مدھم آواز سنائی دے رہی تھی۔ نرس آئی، اس کی نبض چیک کی، آکسیجن کا بہاؤ بڑھایا، اور آہستگی سے دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ لیکن احمد کے بند پلکوں کے پیچھے ایک ہلچل سی تھی، جیسے کوئی سوئی ہوئی روشنی جاگنے لگی ہو۔ دفعتاً اندھیرے میں ایک آہٹ ہوئی، جیسے کسی نے آ کر اس کے دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔ ایک سوال ابھرا: "اگر ایک بار پھر موقع ملے زندگی کو جینے کا، وہ زندگی جو تمہاری تھی، تو کیا تم قبول کرو گے؟" احمد نے کوئی جواب نہ دیا، مگر اس کی روح میں ہلکی سی جنبش ہونے لگی، جیسے کوئی بھولی بسری یاد دھیرے دھیرے آنکھیں کھول رہی ہو۔ روشنی اور سائے کے درمیان ایک منظر ابھرا۔ احمد نے آنکھیں بند کیے کسی کو آتے دیکھا — سفید لباس میں، نرم چال سے چلتا ہوا، نگاہوں میں سکون لیے۔

موت نے کہا، "بس کچھ پل باقی ہیں احمد۔ بس ذرا سا فاصلہ ہے تمہارے اور میرے درمیان۔" پھر دوسری طرف ایک چمکدار سایہ نمودار ہوا، جیسے روشنی نے خود کو مجسم کر لیا ہو۔ وہ زندگی تھی۔ اس نے کہا، "نہیں، وہ ابھی جاگ سکتا ہے۔ وہ ابھی جی سکتا ہے۔ اسے موقع دو۔" احمد کی روح نے سوال کیا، "کیا واقعی میرے لیے کچھ باقی ہے؟ میں تو برسوں سے صرف زندہ رہا ہوں، جیا نہیں۔" زندگی نے ہنس کر جواب دیا، "میں نے کئی بار آواز دی، تم نے سنا نہیں۔ تم نے خود کو دفتری حاضری، یوٹیلٹی بل، دوپہر کی چائے، اور قسطوں کی ہتھکڑیوں میں قید کر لیا۔ مگر میں تب بھی تمہارے اندر موجود رہی — تمہارے گٹار میں، تمہارے ادھورے شعروں میں، تمہارے خوابوں میں۔" احمد نے دھیرے سے کہا، "وہ خواب... جو میں نے آخری بار اس دن دیکھے تھے، جب میرا پہلا بچہ پیدا ہوا تھا۔ تب میں نے خود سے کہا تھا: خوابوں کا وقت ختم، اب ذمہ داری شروع۔"

زندگی اس کے قریب آئی اور نرمی سے بولی، "ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ تم خود کو دفن کر دو۔ تم جو بننا چاہتے تھے، وہ اب بھی تم بن سکتے ہو۔ بس ایک ہاں چاہیے۔" تبھی موت نے قدم آگے بڑھایا اور کہا، "یاد رکھو احمد، میں بہت نرم ہوں، بہت سادہ۔ میرے بعد نہ بل آتے ہیں، نہ تھکن، نہ بھاگ دوڑ۔ صرف سکون ہوتا ہے۔" زندگی نے جواب دیا، "لیکن میرے بعد وہ سب ہوتا ہے، جو تم نے صرف محسوس کیا، مگر کبھی چھوا نہیں۔ وہ گیت، وہ پہاڑ، وہ عشق... وہ تم۔" موت نے کہا، "چلو احمد، تھک گئے ہو نا؟" زندگی نے پکارا، "چلو احمد، جاگ لو نا۔"

احمد کی پلکوں کے نیچے نمی کی ایک بوند ٹھہر گئی۔ اس نے جیسے دل کے اندر سے صدیوں پرانی زنجیر توڑی اور بس اتنا کہا، "میں تھکا ضرور ہوں، مگر مرا نہیں۔ میں جینا چاہتا ہوں... اپنی زندگی۔" تب روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ احمد کی آنکھیں کھل گئیں۔ نرس چونک گئی، قریب آئی اور بولی، "آپ جاگ گئے؟" احمد نے ہولے سے مسکرایا۔ اس کی آواز دھیمی، مگر پُرعزم تھی: "نہیں، اب جاگا ہوں۔ اب میں اپنی زندگی جینے والا ہوں۔"

  

Saturday, July 19, 2025

جب تعلیم جرم، اور جہالت انعام بن جائے!



 پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم، صحت اور سیکیورٹی ہر شہری کا بنیادی حق ہیں، اور ان کی فراہمی ریاست کی آئینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ یہی بنیاد تھی جس پر ریاست عوام سے مختلف نوعیت کے ٹیکسز، محصولات اور ڈیوٹیاں لیتی ہے تاکہ شہریوں کو ایک باوقار، محفوظ اور باعلم زندگی فراہم کی جا سکے۔ مگر بدقسمتی سے یہ آئینی وعدے اب محض کاغذی دعوے بن چکے ہیں۔ ریاست کی ترجیحات میں نہ تعلیم ہے، نہ صحت اور نہ ہی عوامی تحفظ۔ اصل ترجیح اشرافیہ کا تحفظ، مراعات یافتہ طبقے کا تسلسل، اور عوامی شعور کا انسداد بن چکی ہے۔

خاص طور پر تعلیم کا شعبہ، جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، آج پاکستان میں بدترین زوال کا شکار ہے۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض انتظامی غفلت یا مالی مشکلات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی منصوبہ بندی دکھائی دیتا ہے — ایک سازش جس کا مقصد عوام کو باشعور شہری بننے سے روکنا ہے، تاکہ وہ حکمرانوں سے سوال نہ کر سکیں، احتساب نہ مانگ سکیں، اور غلامی کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لیں۔

آج اگر پنجاب کے کالج اساتذہ کی حالت پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کی نظر میں استاد کی کیا وقعت رہ گئی ہے۔ ان کی تنخواہیں سالوں سے منجمد ہیں، کنوینس الاؤنس، بجلی کی سبسڈی، صحت سہولیات اور دیگر معمولی مراعات بھی ختم کر دی گئی ہیں۔ تنخواہوں میں کٹوتیاں، بے جا ٹیکسز، اور "ریبیٹس ریورسل" جیسے ذلت آمیز حربے متعارف کروائے گئے ہیں۔ استاد اگر آواز اٹھائے تو اس پر انکوائری، شوکاز نوٹس اور انتقامی کارروائیاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ گویا سوال کرنا جرم ہے، اور تعلیم دینا ایک بغاوت!

یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب حکمران طبقہ دن بہ دن اپنی مراعات میں اضافہ کر رہا ہے۔ حالیہ بجٹ میں وفاقی وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں چھ سو گنا اضافہ کر دیا گیا، جب کہ عام سرکاری ملازمین، خصوصاً تعلیم اور صحت سے جڑے افراد کے لیے محض 10 فیصد اضافہ کیا گیا وہ بھی اس وقت جب مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پیٹرول، بجلی، گیس، دوا، آٹا سب کچھ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے، مگر حکمرانوں کی گاڑیاں نئی ہو رہی ہیں، دفاتر کی آرائش پر کروڑوں لگ رہے ہیں، اور پروٹوکول کے قافلے لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔

مزید خطرناک پہلو یہ ہے کہ ریاست تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کر کے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر رہی ہے اور وہ پرائیویٹ سیکٹر اب صرف اہل افراد کے نہیں بلکہ ان پڑھ، دولت مند اور بااثر لوگوں کے قبضے میں ہے جن کا مقصد تعلیم دینا نہیں بلکہ تعلیم کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہ ادارے نصاب، امتحانات، تقرریاں، داخلے اور ڈگری سب کچھ اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔ وہاں نہ میرٹ ہے، نہ شفافیت، نہ نظریاتی توازن۔ یوں علم فروشی کو کاروبار میں بدلا گیا ہے، اور طالب علم محض ایک کسٹمر بن کر رہ گیا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت زیادہ ہولناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انہی جعلی اور کاروباری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد اب خود پالیسی ساز بن چکے ہیں۔ ریاست نے ادارے ان لوگوں کے حوالے کر دیے ہیں جن کے لیے تعلیم کا مطلب صرف ڈگری ہے اور شعور صرف خطرہ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ریاست پیچھے ہٹی اور غیر ریاستی عناصر، سرمایہ دار، مذہبی گروہ، سیاسی خاندان اور بین الاقوامی این جی اوز نے تعلیم پر قبضہ کر لیا۔ وہی پڑھا رہے ہیں، وہی نصاب لکھ رہے ہیں، وہی اقدار طے کر رہے ہیں، اور وہی یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ نئی نسل کو کیا سوچنا ہے، کیا نہیں سوچنا۔

یہی وہ روش تھی جو ماضی میں کئی ریاستوں کے زوال کا سبب بنی۔ جب تعلیم کو نظریاتی ہتھیار بنا کر عوام کو تقسیم کیا جاتا ہے، جب اداروں کو بیچا جاتا ہے، جب ملک کی فکری باگ ڈور شعور دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے، تو پھر ریاستیں صرف معاشی نہیں، فکری اور جغرافیائی طور پر بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

پاکستان کے نوجوان جب یہ کہتے ہیں کہ "اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟" تو یہ صرف ایک ذاتی مایوسی نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے۔ یہ اس ریاست کی ناکامی کا اعلان ہے جس نے اپنے شہریوں کو اعتماد، راستہ، مقصد اور امید دینے کی بجائے ان سے سب کچھ چھین لیا۔

ریاست اگر واقعی اپنی بقا اور عوام کی بہتری چاہتی ہے تو اسے اب تقاریر سے آگے بڑھ کر حقیقی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اساتذہ کو معاشی تحفظ دینا ہوگا، اداروں کو خودمختاری دینا ہوگی، تعلیم کو کاروبار سے نکال کر خدمت کے دائرے میں لانا ہوگا۔ نصاب کو آزاد، جامع اور انسان دوست بنانا ہوگا، نہ کہ مخصوص طبقے، فرقے یا نظریے کی خدمت کا آلہ۔ پرائیویٹائزیشن کے نام پر جو تباہی مچائی جا رہی ہے، اسے روکنا ہوگا اور عوامی اداروں کو دوبارہ فعال، باوقار اور مؤثر بنانا ہوگا۔

کیونکہ قومیں اس وقت مٹتی ہیں جب وہ تعلیم کو دفن کر دیتی ہیں، اور جہالت کو جھنڈا تھما دیتی ہیں۔ افسوس کہ آج ہماری ریاست اسی راہ پر گامزن ہے  جہاں شعور ایک خطرہ اور اندھی تقلید ایک خوبی بن چکی ہے۔


Saturday, March 29, 2025

حقیقتِ زندگی: خواب یا کیمیائی ترکیب؟


کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ زندگی، زندگی نہیں بلکہ ایک خواب ہے۔ ہماری اصل زندگی ولادت سے پہلے کہیں سرگرمِ عمل تھی اور مرنے کے بعد پھر مصروفِ عمل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک مسافر کو چلتے چلتے نیند آ جاتی ہے اور وہ نیند میں ایک سہانا خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے، اِسی طرح چلتے چلتے ہمیں نیند نے آ لیا اور ایک خواب شروع ہو گیا۔ اِسی خواب میں ہم بیدار ہوئے، تعلیم حاصل کی، ملازمت کی، پنشن ملی، بڑھاپا آیا، مر گئے اور جیسے ہی آنکھ کھلی، تو معلوم ہوا کہ:

"خواب تھا جو کچھ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔"

ہم ہر رات خواب دیکھتے ہیں، جس میں ہم کھا پی رہے ہوتے ہیں، کھیل رہے ہوتے ہیں، کبھی اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں تو کبھی کسی ڈراؤنے خواب سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو خواب تھا۔ اگر فرض کریں کہ ہم چالیس سال تک نہ جاگیں، تو ہم اِسی خواب کو ہی اپنی اصلی زندگی سمجھنے لگیں گے۔ یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ زندگی حقیقت ہے یا خواب؟ مرزا غالب نے کہا تھا:

"ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں۔"

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "لوگ سو رہے ہیں، مرتے ہی جاگ اٹھیں گے۔"

نیند کیا ہے؟ موت و حیات کا ایک ہلکا سا تجربہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر، آیت 42 میں فرماتا ہے: "اللہ موت کے وقت انسانوں کی روحیں پوری طرح قبض کر لیتا ہے اور زندوں کو ہر شب موت کا نقشہ دکھاتا ہے۔"

ایک بزرگ نے زندگی کو یوں بیان کیا تھا:

"زندگی ایک دم کا وقفہ ہے، یعنی آگے چلیں گے، دم لے کر۔"

ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اور یہ کیسے ختم ہو جاتی ہے؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات مختلف عناصر (Elements) سے بنی ہے، جو مخصوص تناسب میں مرکبات (Compounds) بناتے ہیں۔ یہی تناسب زندگی کی بنیاد ہے، اور اِس تناسب کا ٹوٹ جانا ہی موت ہے۔ مثال کے طور پر، پانی (H2O) زندگی ہے، جو زمین کے 70 فیصد حصے پر موجود ہے۔ اگر آکسیجن کی مقدار ذرا سی بھی زیادہ ہو جائے، تو یہ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ (H2O2) بنا دیتی ہے، جو زہر ہے۔

یہ اللہ کی حکمت ہے کہ وہ نہ صرف ان عناصر کو ایک خاص ترتیب میں رکھتا ہے بلکہ کسی قسم کا بگاڑ بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اگر آج یہ قوتِ قاہرہ اپنی نگرانی اٹھا لے، تو کائنات کا شیرازہ بکھر جائے، عناصر تحلیل ہو کر اپنے مراکز کی طرف بھاگنے لگیں اور دنیا میں صرف دھواں ہی دھواں رہ جائے۔

"زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کا پریشان ہونا۔"

اللہ تعالیٰ سورۃ انعام، آیت 61-62 میں فرماتا ہے: "کائنات پر اسی کی مشیتِ قاہرہ کی حکمرانی ہے، اور اس نے تم پر محافظ مقرر کر رکھے ہیں جو ترکیب عناصر کی حفاظت کرتے ہیں، اور یہ حفاظت موت (یعنی تحلیل عناصر) تک جاری رہتی ہے۔"

یہ حقیقت ہے کہ تمام جانداروں کی ترکیب آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن اور چند نمکیات سے ہوئی ہے۔ ان اجزاء کی مخصوص نسبت میں ذرا برابر تبدیلی بھی کائنات کے نظام کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ انسانی جسم کا تقریباً 99 فیصد حصہ آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ 0.85 فیصد پوٹاشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین اور میگنیشیم پر مشتمل ہوتا ہے۔

اگر ایک انسان کے جسم میں موجود عناصر کی قیمت کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ تقریباً 1985.77 امریکی ڈالر بنتی ہے، جو آج کے پاکستانی کرنسی کے حساب سے تقریباً 2,45,987 روپے بنتی ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو کروڑوں روپے بھی دے کر کہا جائے کہ اپنی ایک آنکھ دے دو، تو وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔

انسانی جسم کے یہ عناصر مختلف مرکبات (Compounds) کی صورت میں موجود ہوتے ہیں، اور موت کے بعد یہ مرکبات تحلیل ہو کر دوبارہ عناصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، انسانی موت کی منصوبہ بندی کہیں پہلے سے ہی اس کے ڈی این اے (DNA) میں شامل ہوتی ہے، جو ایک گھڑی کی طرح موت کے لمحات گنتی رہتی ہے۔ جیسے ہی وقت مقرر آتا ہے، خلیوں کی توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے اور انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔

موت کے بعد جسم کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، جسے "برودۂ موت" (Algor Mortis) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد تعفن پیدا ہوتا ہے (Decomposition) اور لاش کے اکڑ جانے کے عمل میں مختلف کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جدید طب اور ٹیکنالوجی نے موت کو دل اور سانس کی حرکت رک جانے سے تعبیر کیا ہے، جبکہ آج کا طبیب دماغی موت (Brain Death) کو حیاتیاتی موت (Biological Death) قرار دیتا ہے۔

انسانی جسم پر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ بال اگ رہے ہیں، آنکھیں دیکھ رہی ہیں، دل دھڑک رہا ہے، سانس چل رہی ہے، کان سن رہے ہیں اور دماغ سوچ رہا ہے۔ اس کارخانے کے انجن کا نام "روح" ہے۔ اسی طرح پوری دنیا کے کارخانے میں دریا اور سمندر بہہ رہے ہیں، ہوائیں چل رہی ہیں، سورج روشنی دے رہا ہے، دن اور رات اپنے وقت پر آ جا رہے ہیں۔ مگر ان سب کے پیچھے ایک ہی قوت ہے: اللہ تعالیٰ۔

"تمہاری ترکیب خاکی ذرات سے ہوئی، جس کے انتشار کا وقت بھی مقرر ہو چکا ہے۔" (سورۃ انعام، آیت 6)

انسانی بدن کی تخلیق اللہ کا ایک حیرت انگیز اعجاز ہے، جسے دیکھ کر عقل سربسجود ہو جاتی ہے۔ بدنِ انسانی کی تخلیق خلیوں سے ہوتی ہے، ابتدا میں یہ خلیہ ایک ہوتا ہے، پھر دو، چار، آٹھ میں تقسیم ہو کر بدن کی تشکیل کرتا ہے۔ بعض خلیے کان، بعض آنکھ، بعض ناک اور بعض دیگر اعضاء کی تشکیل پر لگ جاتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ خلیے سازش یا بغاوت کر کے کان کی جگہ ناک اور ناک کی جگہ آنکھ بنا دیں، کیونکہ ایک عظیم طاقت ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہی ہے۔

"ارض و سما کی ہر چیز مشیّتِ ایزدی کو بجا لانے پر مجبور ہے۔" (سورۃ آل عمران، آیت 83)

یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے، اور اسی کی مشیت کے مطابق ترکیبِ عناصر اور تحلیلِ عناصر کا یہ سفر جاری ہے۔

 انسانی جسم کے بنیادی عناصر

کل مالیت ($)

قیمت فی کلوگرام ($)

جسم میں مقدار (kg)

عنصر (Element)

129

3

43

آکسیجن

384

24

16

کاربن

700

100

7

ہائیڈروجن

7.2

4

1.8

نائٹروجن

200

200

1.0

کیلشیم

234

300

0.78

فاسفورس

140

1000

0.14

پوٹاشیم

70

500

0.14

سلفر

25

250

0.10

سوڈیم

0.14

1.5

0.095

کلورین

0.7

37

0.019

میگنیشیم

0.3

72

0.0042

آئرن


عناصر اور ان کے استعمالات

استعمالات
عنصر (Element)
سانس لینے، خون میں آکسیجن کی ترسیل، توانائی کی پیداوار
آکسیجن
ڈی این اے، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس اور چربی کی تشکیل
کاربن
پانی کا بنیادی جز، خلیوں میں توانائی کے عمل میں مددگار
ہائیڈروجن
پروٹین اور ڈی این اے کی تشکیل، خلیوں کی نشوونما
نائٹروجن
ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی، خون کے جمنے کا عمل
کیلشیم
ڈی این اے، توانائی کے مالیکیول (ATP) کی تشکیل
فاسفورس
پٹھوں اور اعصاب کی فعالیت، بلڈ پریشر کو متوازن رکھنا
پوٹاشیم
امینو ایسڈز اور پروٹین کی تشکیل
سلفر
اعصابی سگنلز کی ترسیل، پانی کے توازن کا برقرار رکھنا
سوڈیم
جسم میں پانی اور الیکٹرولائٹس کے توازن کو برقرار رکھنا
کلورین
اعصابی اور عضلاتی نظام کی درستگی، ہڈیوں کی مضبوطی
میگنیشیم
خون میں ہیموگلوبن کی تشکیل، آکسیجن کی ترسیل
آئرن