تیس اپریل2024 کی صبح جب ہم کالج پہنچے، تو پروفیسر اختر بخاری کا وائس میسج واٹس ایپ پر موصول ہوا، جس میں ان کی آواز اضطراب اور پریشانی سے لرز رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مرشد کی حالت بہت نازک ہے۔ فوراً ہم دوست، راقم الحروف، پروفیسر ڈاکٹر جاوید احمد، پروفیسر بلال خان، پروفیسر علی حسن، اور دیگر احباب ہسپتال پہنچے۔ وہاں پہنچ کر ہماری آنکھوں نے پروفیسر فیصل ہاشمی کو دل کا دورہ کی حالت میں زندگی کے لیے موت سے لڑتے دیکھا۔ نصف گھنٹے کے اندر وہ ہمیں بے بسی اور دکھ کی حالت میں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہمارے دلوں میں ایک سنسنی خیز خاموشی چھا گئی، اور ان کی آخری تصویر کی دھندلاہٹ نے ہمیں گہرے صدمے میں ڈال دیا۔ تمام دوستوں کی بے بسی، ان کے اہل خانہ کا غم، اور پریشانی کی حالت میں دعا کرتے ہوئے، سب کچھ خدا کی قدرت کے سامنے بے بس محسوس ہو رہا تھا۔ یہ عظیم دوست، جن کی یادیں اور الفاظ اور ان ک احساس اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں، ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے، اور یہ لمحہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا ہے۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی کو 2016 میں گردوں کی بیماری کی تشخیص ہوئی، جو ان کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ 2023 میں ان کے بیٹے نے اپنا گردہ عطیہ کر کے ایک شاندار مثال قائم کی۔ اس محبت کے باعث، پروفیسر ہاشمی نے ایک سال تک لاہور کے پی کے ایل آئی ڈیپارٹمنٹ میں علاج جاری رکھا اور بھرپور حوصلے کے ساتھ زندگی گزاری۔ بیماری کے دوران بنائی گئی ویڈیوز، جو دوستوں کے ساتھ ان کی محبت اور خلوص کو ظاہر کرتی ہیں، یہ دکھاتی ہیں کہ وہ اس مشکل وقت میں بھی مثبت اور پُرامید رہے۔ کالج کے ہر فنکشن نہ صرف بھرپور شرکت کرتے رہے بلکہ کالج کمیٹی کے انتظامات کی بھی صدارت بھی انہی کے ذمہ ہوتی تھی۔ یہ محبت اور حوصلہ ایک گہرا جذباتی رشتہ قائم کرتے ہیں، جو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گا۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی کی زندگی اور خدمات کا ذکر دل میں ایک عجیب سا درد اور ملال پیدا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے علم، شخصیت، اور کردار کے ذریعے نہ صرف اپنے طلباء، بلکہ اپنے ساتھی اساتذہ اور کالج کے چھوٹے عملے کے دلوں میں بھی ایک خاص مقام بنا لیا تھا۔
پروفیسر فیصل کی شخصیت میں ایک خاص جاذبیت تھی۔ ان کی نرم دلی اور عاجزی نے انہیں دوسروں کے لیے قابلِ احترام بنا دیا تھا۔ وہ صرف ایک استاد نہیں تھے؛ وہ ایک رہنما، ایک دوست، اور ایک سچے مخلص انسان تھے۔ ان کا درس و تدریس کا انداز نہ صرف طلباء کو متاثر کرتا تھا، بلکہ ان کے ساتھی اساتذہ بھی ان کے علم و دانش کی معترف تھے۔ ان کی کلاس میں موجود ہر طالب علم کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان کی بات کو سنتے ہیں اور ان کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی نے اپنے کالج کے ساتھی اساتذہ اور چھوٹے عملے کے ساتھ ہمیشہ محبت اور احترام کا رشتہ قائم رکھا۔ کالج کے پروفیسرز میں وہ ایک بانڈنگ کی حیثیت رکھتے تھے، جو کہ تمام اساتذہ کے درمیان محبت اور احترام کے پل باندھتی تھی۔ سٹاف روم ہو، کینٹین ہو، یا کلاس روم، ہر جگہ ان کی موجودگی ایک خوشگوار ماحول پیدا کرتی تھی۔ چھوٹے عملے کے لیے پروفیسر فیصل کا دل بہت نرم تھا۔ وہ ہمیشہ ان کے مالی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے، اور اگر کسی کو کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہوتی، تو پروفیسر صاحب ہمیشہ سب سے پہلے وہاں پہنچتے۔ ان کے ساتھ وہ صرف ایک استاد یا پروفیسر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک دوست کی طرح پیش آتے تھے، جو ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا۔
پروفیسر فیصل کا طلباء کے ساتھ بھی ایک بہت ہی خاص رشتہ تھا۔ وہ صرف تعلیم دینے والے استاد نہیں تھے، بلکہ وہ اپنے طلباء کے لیے ایک مشیر، رہنما، اور ایک محبت کرنے والے دوست تھے۔ ان کی کلاس میں کوئی بھی طالب علم اپنے مسائل کو بیان کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پروفیسر فیصل انہیں سمجھیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ ان کے پڑھانے کا انداز بہت دلکش تھا؛ وہ طلباء کو صرف کتابی علم نہیں دیتے تھے، بلکہ زندگی کے تجربات اور اخلاقیات کے بارے میں بھی سکھاتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے طلباء کو یہ سکھاتے تھے کہ علم کا اصل مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ ایک اچھا انسان بننا ہے۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی کی اچانک وفات نے نہ صرف ان کے خاندان، بلکہ پوری کالج کمیونٹی کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا۔ ان کے دوست احباب، ساتھی اساتذہ، طلباء، اور چھوٹے عملے کے دلوں میں ان کی کمی کا احساس آج بھی موجود ہے۔ کالج کے چھوٹے عملے کے لوگ، جن کے مالی مسائل پروفیسر فیصل حل کیا کرتے تھے، اب ایک بہت بڑی کمی محسوس کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی مدد سے اپنے بچوں کی تعلیم اور زندگی کے دیگر مسائل کو حل کرتے تھے، اب ان کے بغیر بہت پریشان ہیں۔ ان کی غیر موجودگی نے ان کے دلوں میں ایک ایسا خلا چھوڑ دیا ہے جو شاید کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔
پروفیسر فیصل کی اکلوتی اولاد، ان کا بیٹا، اپنے والد کی اچانک وفات کے بعد بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا ہے۔ پورا خاندان اس غم کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن پروفیسر فیصل کی غیر موجودگی نے ان کے دلوں پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان کے خاندان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ پروفیسر فیصل نے اپنی زندگی میں جتنا کچھ کیا، وہ سب کے لیے ایک مثال ہے، لیکن ان کی کمی نے ان کے دلوں میں ایک ایسا زخم چھوڑ دیا ہے جو شاید کبھی نہیں بھر سکے گا۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی کی یاد آج بھی ان کے دوستوں، ساتھی اساتذہ، طلباء، اور کالج کے چھوٹے عملے کے دلوں میں زندہ ہے۔ ان کی محبت، عاجزی، اور دوسروں کی مدد کرنے کی عادتیں آج بھی سب کو یاد ہیں۔ ان کی شخصیت کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے، وہ کم ہے۔ وہ ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی خدمت میں گزار دی۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا نام، ان کی محبت، اور ان کا درس و تدریس کا انداز سب کے دلوں میں زندہ رہے گا۔
پروفیسر فیصل عباس ہاشمی جیسے لوگوں کی زندگی میں ایک ایسی روشنی ہوتی ہے جو ان کے جانے کے بعد بھی بجھتی نہیں ہے۔ ان کی شخصیت، ان کا کردار، اور ان کی خدمات ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی غیر موجودگی نے سب کے دلوں میں ایک ایسی کمی پیدا کر دی ہے جو شاید کبھی پُر نہیں ہو سکے گی۔ لیکن ان کی یاد، ان کی محبت، اور ان کا درس ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔
کالج نے ان کی خدمات کے عوض کالج کے ایک ہال کو "پروفیسر فیصل عباس ہاشمی آڈیٹوریم" کے نام سے منسوب کر دیا ہے تاکہ ان کی یاد کالج اور اس کے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے۔
تُو جو چلا گیا، سب کچھ بدل گیا
تیری یادیں، تیری باتیں، ہر پل ہمارا حصہ بن گئیں
تُو نے دی تھی ہمیں جو محبت کی روشنی
وہ روشنی دلوں میں ہمیشہ چمک رہی ہے
یہ مضمون پروفیسر فیصل عباس ہاشمی کی زندگی کی عظمت اور ان کی یاد کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہے۔
Essa Kahan sy laoon k Tujh'sa kahayn jesy.. 💔❤️🩹
ReplyDeleteانتہائی پاک اخلاق اور مخلص انسان
ReplyDeleteعظیم۔انسان
ReplyDeleteاللہ کریم جنت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے ایسے مخلص دوست بچھڑ کر احباب کی دنیا ملول کر جاتے ہیں
ReplyDeleteعظیم انسان
ReplyDeleteاللہ تعالی درجات بلند فرمائے
ReplyDeleteWali tha
ReplyDeleteAllah pak chachu ko jannat ul firdous ma Allah mukam atta farmiya in ki yaad beshaq humseha zinda ha bs Allah ka qanon ha har Kisi nay Jana yai soch ka chup kar jhty lkin asay Azem logon ko itna jaldi nahi Jana chiya ...
ReplyDeleteMurshad Hamary dilo main Hamesh zinda rahay ge ap ki yaadin ap ki batain ap ki muskorahat Allah pak Hamary murshad ko ap jannat ul firdoss main Aaaalllaaa maqaam atta farmye
ReplyDelete